اس ہفتے میں صدیاں برپا ہوسکتی ہیں : تحریر محمود شام


آج اس مہینے کا پہلا دن ہے۔ جس میں آئندہ انتہائی اہم 5سال کیلئے 25کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کی تقدیر کے فیصلے ہونا ہیں۔آئندہ جمعرات 8 فروری۔ پیر 7دسمبر1970 کی طرح فیصلہ کن ہونے والی ہے۔اب بالآخر الیکشن کا سماں بن رہا ہے۔ گلیوں بازاروں میں پینا فلیکس جھنڈوں، جھنڈیوں کی بہار ہے۔ کراچی میں پہلی انتخابی شہادت بھی واقع ہوچکی ہے۔ ریاست حکومت اور عدلیہ کی طرف سے الیکشن کو محفوظ، منصفانہ اور آزادانہ کی بجائے متنازع بنانے کی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہم اپنے عوام کی رائے سے کیوں خائف رہتے ہیں۔ صدیوں کی سوچ کے بعد رائے شُماری کو کسی ملک کے باشندوں کی اکثریت کی پسند جاننے کا راستہ تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان جیسے مسائل زدہ ملک کیلئے تو خلقت کا اعتماد بہت ضروری ہے۔ یورپ امریکہ کے ملکوں میں صدیوں کی خانہ جنگیوں کے بعد یہی طریقہ قابل قبول ٹھہرا ہے۔

جاننی ہے اکثریت کی پسند

اکثریت کا ہی رستہ روک کر

یہ تجربے ماضی میں بھی کیے گئے۔مثبت نتائج نہ دے سکے۔ زیادہ بڑے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اب سب سے مقبول سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف مختلف اداروں کے فیصلوں اور اقدامات کے باعث میدان میں نہیں ہے۔ اس کا بانی جیل میں ہے۔ انہیں سائفر کیس میں دس سال سزا بھی ہوچکی ہے۔ اسکے خلاف بے حساب مقدمات کی سماعت کیلئے بھی عدالتیں جیل میں ہی لگ رہی ہیں۔ قیدی نمبر804کے لوک گیت پورے ملک میں بسوں، ٹرکوں وینوں میں گونج رہے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے وفادار بھی ان دونوں کے قیدی نمبر یاد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو انتخابی جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے لیڈروں کارکنوں نے اس انتخابی مہم میں ن لیگ اور پی پی پی کے خلاف جو الزامات عائد کرنے تھے وہ دونوں پارٹیاں زیادہ شائستہ اور موثر انداز میں ایک دوسرے کے خلاف لگارہی ہیں۔ گزشتہ 38سال ہی نہیں تازہ 16ماہ کی ناکامیوں کا ملبہ بھی ن لیگ اور پی پی پی بڑے بھرپور طریقے سے ایک دوسرے پر گرارہی ہیں۔ دونوں کے حامی اس گرد و غبار میں اٹ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا کام غائبانہ اسلوب میں ہورہا ہے۔پی ٹی آئی والوں کو پابندیاں عائد کرنے والوں کا شکر گزار ہونا چاہئے کیونکہ اگر وہ میدان میں ہوتی اور بڑے بڑے جلسوں پر کروڑوں روپے خرچ کررہی ہوتی تو عین ممکن تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے دنوں کی طرح ن لیگ اور پی پی پی متحد ہوجاتیں اور ان کی توپوں کا رُخ پی ٹی آئی کی طرف ہوجاتا۔ اپریل 2022 سے قائم ہونے والی پی ڈی ایم حکومت کو اب پی پی پی صرف ن لیگ کی سرکار قرار دے رہی ہے۔ پی ڈی ایم کے وزیر خارجہ بلاول زرداری بھٹو صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ ہر فیصلے کیلئے لندن سے فرمان کا انتظار کیا جاتا تھا۔ ن لیگ پی پی پی پر نجی جیلوں کا الزام بھی لگارہی ہے۔ اور یہ سوال بھی کررہی ہے کہ سندھ میں پی پی پی 15سال سے حکومت کررہی ہے۔ اس نے سندھ والوں کی کیا خدمات کی ہیں۔سب سیاسی جماعتوں کے انتخابی بیانات۔ اور اب عجلت میں تیار کیے گئے منشوروں سے یہ قطعی محسوس نہیں ہورہا ہے کہ انہیں معاملات کی سنگینی کا حقیقی احساس ہے۔ انہیں ایک عظیم مملکت کے حساس محل وقوع، علاقائی اور عالمی چیلنجوں کے پس پردہ پیچیدگیوں کا ادراک ہے۔ پاکستان کا کھویا ہوا وقار کیسے بحال ہوگا۔ اس کی منتخب حکومت کے با اختیار ہونے پر اعتبار کیسے قائم ہوگا۔ 25 کروڑ کی آزادیٔ اظہار کو کیسے تسلیم کیا جائے گا۔ منشوروں میں کیے گئے وعدوں کے لیے مملکت کے پاس پیسے بھی ہیں۔انتخابی تقریروں، سیاسی تجزیوں اور انتظامی میکانزم سے یہ خیال مستحکم نہیں ہوتا کہ ملک میں ایک سیاسی،قانونی آئینی نظام زیر عمل ہے۔ اور واقعی اقتدار منتخب پارٹی کو منتقل ہوگا۔آج سے یوم انتخاب تک کا ہفتہ۔ ہماری 76سالہ تاریخ کا سب سے حساس اور فیصلہ کن ہفتہ ہوگا۔ پاکستان میں عوامی سیاسی سماجی شعور اس وقت نقطۂ عروج پر ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ لاوا بن کر ابل رہا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے چینلوں، گروپوں کے ذریعے جو مہم چلارہی ہیں غور کریں ان کے اہداف کیا ہیں۔ وہ گزشتہ تین چار دہائیوں کی ناکامیوں، المیوں اور سانحوں کی ذمہ داری کس ادارے پر ڈال رہی ہیں۔ پاکستان کے معاشی زوال، انتظامی انحطاط،اخلاقی تنزل کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ اسکرین پر پھیلے تاثرات، صداؤں، چیخم دھاڑ سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں پر رکھے بکسوں میں بیلٹ پیرز نہیں ضمیر کے حلف نامے ڈالے جائیں گے۔ لاکھوں ووٹر اپنا کلیجہ کھول کر رکھ دیں گے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ظاہر ہورہا ہے کہ امریکہ کو اب بھی پاکستان سے دلچسپی ہے۔ وہ پاکستان کے انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کررہا ہے۔ اس لیے پاکستان کے سیاست دانوں، تجزیہ کاروں کو سوچنا چاہئے کہ امریکہ اب پاکستان سے کیا کام لینا چاہتا ہے۔ کیا امریکی انتخابات کے بعد وہاں انتظامیہ بدلنے کی اطلاعات نہیں آرہی ہیں۔ بعض اعتدال پسند عجیب رائے دیتے ہیں کہ عمران خان کو امریکہ کے خلاف اس طرح کھل کر بیان نہیں دینا چاہئے تھا۔ ہمارے عوام کی اکثریت تو 1948 سے یہ کہتی آرہی ہے کہ پہلے وزیر اعظم کو امریکہ کی بجائے روس کا دورہ کرنا چاہئے تھا۔ 1965 اور 1971 کے معرکوں میں امریکہ نے کس کا ساتھ دیا۔ پھر ہمارے ہاں مختلف سیاسی اور فوجی حکومتیں برطرف کرنے میں اور حکمرانوں کو جسمانی طور پر ہٹانے میں بھی کس کا ہاتھ بتایا جاتا ہے ۔ اس لیے ہمیں الیکشن 2024 سے پہلے اور بعد میں بڑی طاقتوں کی دلچسپی بھی سامنے رکھ کر 8 فروری کے بعد پیش آنے والے چیلنجوں، کئی مشکلات کے مقابلے کی تیاری بھی کرنی چاہئے۔ کیا ان خطرات کو دور کرنے کے لیے ہماری تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو واضح ادراک ہے۔ اور کیا داخلی خارجی اور مالی معاملات سے نبرد آزما ہونے کیلئے ان جماعتوں کے پاس کوئی اہلیت اور مدبرین ہیں۔؟

ان ہنگامہ خیز دنوں میں ایک درد مند پاکستانی، ماہر قانون، ترقی پسند دانشور اور 1962کے بارہ کراچی بدر طلبہ میں سے ایک نفیس صدیقی بھی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ ان کی پوری زندگی جدو جہد سے معمور رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان ہی دنوں میں ایک زندہ ضمیر۔ حساس صحافی نادر شاہ عادل بھی ہمیں سوگوار چھوڑ گئے۔ اسلام آباد میں پی ایف یو جے کے رہنما اور بہت محترم صحافی پرویز شوکت بھی خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ دنیا درد مندوں سے خالی ہوتی جارہی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ