افسوس ناک حقیقت، افسوس ناک تاثر : تحریر حسین حقانی


ہر پاکستانی کسی نہ کسی مرحلے پر اپنے ملک کے افسوسناک تاثر پر مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ لاکھوں پاکستانی دنیا بھر میں کام کرتے ہیں اور انھوں نے اپنی محنت اور کام کرنیکی استعداد کی وجہ سے نام کمایا ہے۔ سمندر پار پاکستانی خاص طور پر عالمی میڈیا میں کئے جانیوالے منفی تبصروں کے بارے میں بہت حساس ہیں جن میں انکے ملک کو ’خطرناک‘، ’غیر فعال‘ یا ’غیر مستحکم‘ ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اکثر انکا استدلال ہوتا ہے کہ چونکہ وہ، انکے اہل خانہ اور دوست، سب بہت مہذب افراد ہیں، اسلئے پاکستان کا خراب امیج یقیناً دشمن عالمی قوتوں یا پاکستان کے چور لٹیرے رہنماؤں کا قائم کردہ ہے۔ اور وہ ایسے لیڈروں سے نفرت کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کا مسئلۂ صرف ایسا تاثر ہی نہیں بلکہ کچھ سفاک حقائق بھی ہیں۔ ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ دنیا ملک کی حالیہ تاریخ یا موجودہ دور میں پیش آنیوالے پریشان کن واقعات کو نظر انداز کر دے؟ تاریخی واقعات اور میڈیا کی رپورٹیں بہرحال کسی ملک کے افراد کی مہمان نوازی، ہمدردی یارواداری کا احاطہ نہیں کرتیں۔ انکا موضوع سماجی اور معاشی اشارے، ملک میں اور بیرون ملک اس حکمرانوں کا اختیار اور امن اور جنگ کے معاملات ہوتے ہیں۔ ناپسندیدہ تجزیے کو ’ریاست مخالف‘ کہہ کر یا ’بیرونی ہاتھ کی سازش‘ قرار دیکر مسترد کر دینے سے اصلاح کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹروں، انجینئروں اور بینکاروں کیساتھ ساتھ ٹیکسی ڈرائیور اور صنعتوں میں کام کرنیوالے مزدور، جو بیرونی ممالک میں رہتے اور کام کرتے ہیں، کے ذہن میں برس ہا برس سے ایک بیانیہ انڈیلا گیا ہے کس طرح انکی پاکستان کیلئے کی گئی محنت پر کسی سیاستدان کی غلطیاں پانی پھیر دیتی ہیں۔ چنانچہ زیادہ تر لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان کا خراب تاثر ان اجتماعی غلطیوں کا نتیجہ ہے جن کا ارتکاب طویل عرصے سے کیا جاتا رہا ہے۔ اسکا تعلق کسی ایک یا دوسرے سیاستدان سے نہیں بلکہ غیر فعال سیاسی نظام، رواداری کے فقدان اور اس پالیسی سے ہے جو معاشی ترقی پر دوسروں کیساتھ کشمکش کو ترجیح دیتی ہے۔ پاکستانی سیاست عوام کو ان مشکلات سے بے خبر رکھتی ہے جسکی جڑیں بہت گہری ہیں۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف کو عدالتوں نے سزا سنائی تو سمندر پار پاکستانیوں نے اپنی اپنی پارٹی کیساتھ ہمدردی کی بنیاد پر ان فیصلوں کو سراہا۔ پاکستان تحریک انصاف کے حامی اب ناخوش ہونگے کہ کرکٹ ہیرو، عمران خان کو آنیوالے عام انتخابات سے ٹھیک پہلے سزا سنا دی گئی ہے۔ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ کسی بھی ملک کا بیرونی دنیا کیلئے عوامی چہرہ ہوتے ہیں۔ جب ان پر جرائم کے الزامات لگتے ہیں تو ملک کا چہرہ داغدار ہوتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انکا تعلق کس جماعت سے ہے۔ بعض اوقات لوگوں کو یہ سمجھانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ مسائل اور انکے حل پر غور کریں، نہ کہ شخصیات پر اور یہ کہ ان میں سے اصل قصور وار کون ہے۔ قومی رہنماؤں کی گرفتاریاں، مقدمے اور سزائیں کوئی نایاب واقعہ ہونا چاہئے۔ اگر اقتدار میں آنیوالا ہر شخص ہر چند سال بعد اسی انجام سے دوچار ہو تو اسکا مطلب ہے کہ نظام میں کچھ خرابی ہے۔ قومی بیانیے کی توجہ اس پر ہونی چاہئے، بجائے اس کے کہ کسی فلاں یا فلاں سیاستدان کو ہدف بنایا جائے۔

پاکستان1947 ء میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک ایک طویل سفر طے کرچکا، لیکن یہ اپنے ساتھ قائم ہونیوالے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسکا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کی شرح خواندگی جو 1947 میں گیارہ فیصد تھی، 2023 ء میں اٹھاون فیصد تک پہنچ گئی ۔ لیکن اس عرصہ کے دوران کہیں بڑی آبادی رکھنے والے انڈیا کی شرح خواندگی بارہ فیصد سے 76.3فیصد تک جا پہنچی۔ گزشتہ برس بنگلہ دیش کی شرح خواندگی 74.6فیصد تھی جبکہ 1971 ء میں یہ محض سترہ فیصد تھی۔شرح خواندگی بڑھانے میں پاکستان کی ناقص کارکردگی پارٹی پالیٹکس کا معاملہ نہیں، اور نہ ہی اسکا الزام اُن سیاستدانوں کی بدعنوانی پرلگایا جاسکتاہے جنھیں آپ پسند نہیں کرتے۔ قومی فخر پاکستانیوں کو اس حقیقت کا سامنا کرنے سے نہیں روکتا کہ تعلیم انکی قومی ترجیح میں وہ درجہ نہیں رکھتی جو ایٹمی ہتھیاروں کا حصول رکھتا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے پاکستان کا مسئلہ بجٹ میں رقوم مختص کرنے اور ناقص پالیسی ترجیحات سے لے کر نصاب تعلیم تک ہے کہ پاکستانی کیا پڑھنا اور جاننا چاہتے ہیں ۔ پاکستان اپنے دفاع پر پرائمری تعلیم سے سات گنا زیادہ خرچ کرتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اسکے دفاعی بجٹ کا صرف بیسواں حصہ یونیورسل پرائمری تعلیم کی ترویج کیلئے کافی ہوگا۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی قوم اورساتویں بڑی فوج رکھتا ہے لیکن اسکے جی ڈی پی کا حجم چوبیسواں ہے، اگر ڈالر میں مسابقتی قوت خرید کے حوالے سے جانچ کی جائے، اور چھیالیسواں، اگر کل مارکیٹ کی قدر کے حوالے سے جانچ کی جائے ۔ آزادی کے تقریباً پندرہ برس تک پاکستان نے قومی بجٹ سے خواندگی کیلئے کوئی رقم مختص نہ کی ۔ 1947ء سے لیکر 1957ء کے درمیان اسکی شرح خواندگی جوں کی توں رہی ، بلکہ اس میں کچھ کمی ہی آئی ۔ سرکاری رپورٹوںمیں اسکی ناکامی کی ذمہ داری ’’غیر مستحکم انتظامی اورتنظیمی بندوبست‘‘ پر ڈالی گئی ہے۔ حتیٰ کہ آج بھی دنیا میں پاکستان سے کم شرح خواندگی رکھنے والے صرف پندرہ ممالک ہیں ۔ پست شرح خواندگی اور تعلیم میں ناکافی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکنالوجیکل بنیاد کمزور رہی ہے ۔ اور یہ صورت حال اقتصادی جدت کاری کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے ۔ پاکستان کی تعلیمی پسماندگی کی وجہ اسکی غربت نہیں ، بلکہ معاشی میدان میں ناقص کارکردگی کی وجہ پست شرح خواندگی ہے۔ جی ڈی پی کے حوالے سے فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کے تینتالیس ممالک پاکستان سے بھی غریب ہیں لیکن ان میں سے چوبیس ممالک پاکستان سے زیادہ بچوں کو پرائمری سکول بھیجتے ہیں۔ لیکن جس دوران پاکستان اپنے بارہویں عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، میڈیا اورسیاست دان ان دیگر سفاک حقائق کو بمشکل ہی زیر بحث لاتے سنائی دیتے ہیں ۔ اس دوران پاکستانی اپنے ملک کے امیج کے بارے میں بے حد پریشان ہیں، اور امید کررہے ہیں کہ ان کا پسندیدہ لیڈر اسے درست کر دیگا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ