شوکت خانم بنام عمران خاں : تحریر سہیل وڑائچ


مکافات نگر

نیازی منزل!برکی محلہ

پیارے بیٹے عمران!

ڈھیروں دعائیں اور خصوصی پیار۔ گزشتہ روز سائفر کیس میں سزا کا سن کر بہت دکھ ہوا ،بہت سے جمہوری افراد نے اکٹھے ہو کر ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور ہمارا حوصلہ بڑھایا کہ مشکل دور جلد ختم ہو گا اور ایک وقت آئے گا کہ آپکے بیٹے کو بھی آزادی ملے گی۔

عمران ،کل ہم بیٹھے یاد کر رہےتھے کہ جب تم تین چار سال کے تھے تو ہم تمہیں کاکا کہہ کر بلاتے تھے مگر جب تم بڑے ہوئے تو پھر سب نے اصلی نام عمران سے بلانا شروع کر دیا ،تم مجھے امی اور والد کو آغا جان کہہ کر بلاتے تھے ہمارے گھر کی بات چیت مصنوعی نہیں تھی بے تکلفی سے بات ہوتی تھی اور ایک دوسرے کو تم کہہ کر ہی بلایا جاتا تھا۔

دیکھو تمہیں یاد ہو گا کہ میں تمہیں کہا کرتی تھی عمران تم بہت بھولے ہو، دنیا بڑی چالاک ہے۔ وزارت عظمیٰ چھوڑنے کے بعد تم نے میڈیا سے گفتگو میں میرا یہ فقرہ بھی سنایا اور بتایا کہ جنرل قمر باجوہ تمہارے ساتھ کئی کھیل کھیلتا تھا او رتم بھولپن میں اسکی ہر بات مان لیتے تھے ۔

عمران، اب بھی تمہارےساتھ یہی ہو رہا ہے، تمہارے نام نہاد چاہنے والے ہی تمہارے دشمن ہیں ،یہ فوج اور ریاست کو گالیاں دیتے ہیں، لوگوں کی ٹرولنگ کرتے ہیں، بدتمیزی کا طوفان برپا کرتے ہیں اس سب کا ردعمل ان کو نہیں بلکہ تمہیں بھگتنا پڑتا ہے، یہ اندھے پیروکار تمہاری مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں ۔بیرسٹر گوہر علی اور سلمان اکرم راجہ اچھا اضافہ ہیں،مکافات نگر کے جمہوری لوگ ان دونوں کو بہت سراہ رہے ہیں اور مشورہ دے رہے ہیں کہ عمران کو کہیں کہ ان دونوں سے قربت رکھے اگر کوئی راستہ نکالنا ہے تو وہ انہی کی مدد سے نکلے گا۔

کل ہی سرراہ ہماری ملاقات آزادی ِصحافت کے دو میناروں منہاج برنا اور نثار عثمانی سے ہو گئی ،انہوں نے پہلے تو تمہارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر اظہار ہمدردی کیا اور پھر ساتھ ہی کہا کہ عمران نے جنرل باجوہ کے منصوبے کےتحت میڈیا کو مالی طورپر تباہ کر دیا، سب سے بڑے میڈیا مالک کو جیل بھیج دیا اور آزادی صحافت کا گلا گھوٹنے کی بھرپور کوشش کی۔ان دونوں بڑی شخصیات کا خیال تھا کہ عمران کو میڈیا سے ماضی میں کئے جانے والے سلوک پر کھلے عام معذرت کرنی چاہئے اور وعدہ کرنا چاہئے کہ آئندہ وہ آزادی صحافت کو یقینی بنائےگا۔

یہاں پر جمہوریت پسندوں کا ایک بڑا گروپ آباد ہے۔ یہ جناح صاحب اور فاطمہ جناح سے ملتے بھی ہیں اور رہنمائی بھی لیتے ہیں ،یہ گروپ تم سے بڑی ہمدردی رکھتا ہے مگر یہ شکوہ بھی کرتا ہے کہ تم نے دل سےاسٹیبلشمنٹ کی بالادستی اور مداخلت کو تسلیم کر رکھا ہے جبکہ جمہوریت پسند اس چیز کو ماننےپر تیار نہیں، وہ کہتے ہیں کہ تم نے 2018ء میں اس وقت کے جرنیلوں سے مل کر حکومت حاصل کی مگر کم ازکم اب تو تمہیں سمجھ جانا چاہئے اور خالص جمہوریت اور آئین کی بات کرنی چاہئے، وہ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف بھی شروع میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے مگر بعد میں بدل گئے تمہیں بھی بدلنا چاہئے ۔

دوسری طرف یہاں بہت سے ریٹائرڈ فوجی بھی ہمیں ملتے ہیں، ان میں کئی تمہارے شدید حامی ہیں مگر وہ سارے یہ کہتے ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت تضادستان جیسے ملک میں تشدد کے سہارے انتہائی مضبوط فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ یہاں مصالحت، مذاکرات اور عوامی دباؤ کا حربہ اختیار کرنا پڑتا ہے یہاں مقبولیت کے ساتھ قبولیت بھی ضروری ہے تمہارے پاس مقبولیت تو ہے فی الحال قبولیت نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمران کو بیرسٹر گوہر علی کے ذریعے اعتماد سازی کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ مقتدرہ اور پی ٹی آئی کے درمیان خواہ مخواہ کی عداوت ختم کی جائے، پہلے قدم کے طور پر گالی بریگیڈ کو لگام دینے کی ضرورت ہے جس سے اقتدار لینا ہے اگر اسی کو گالیاں دی جائیں گی تو پھر صلح کیسے ممکن ہو گی؟

کل نعیم الحق آیا تھا کہنے لگا مجھے عمران کے کان میسر تھے میں ہربات اس سے کرلیتا تھا جب تک میں اس کےساتھ تھا اسکی فوج سے لڑائی نہیں ہوئی اب کوئی مخلص دوست اس کےساتھ نہیں رہا ہر کوئی اپنے مفادات کےتحت یا خوشامد کی خاطر مشورے دیتا ہے جس سے معاملات اس موڑ تک پہنچ گئے ہیں۔ نعیم الحق کا خیال تھا کہ عمران کو اپنی حکمت عملی بدلنی چاہئے ،جارحانہ حکمت عملی سے نقصان ہوا ہے مفاہمانہ حکمت عملی اپنانی چاہئے ،سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا راستہ کھولنا چاہئے یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر عمران خان کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔

بیٹا عمران !

علیمہ خان اور تمہاری باقی بہنیں تم سے بے تحاشا پیار کرتی ہیں ہمیشہ دکھ سکھ میں اکلوتے بھائی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں لیکن اب ان کا شکوہ ہے کہ تمہارا بہت زیادہ جھکاؤ پیرنی بشریٰ کی طرف ہو گیا ہے تمہیں چاہئے کہ اس حوالے سے توازن اختیار کرو بلکہ لندن میں اپنے بیٹوں کے ساتھ بھی مکمل رابطہ رکھو انہیں پاکستان بلاؤ اور اپنے پاس رکھو یہ ہمارے خاندان کے بچے ہیں انہیں پاکستان کے حالات وواقعات سے بھی آگہی ہونی چاہئے۔

میں یہ خط لکھ رہی ہوں تو تمہارے آغاجان کہہ رہے ہیں کہ میری طرف سےیہ لکھو کہ عمران تمہارے سارے ننھیال یا تو سرکاری ملازم تھے یا پھر فوجی، ہمارے ہاں ریاست مخالف بیانیے کو کوئی لفٹ نہیں کراتا تھا ،تم بھی خوشامدیوں کے کہنے میں قائد بغاوت نہ بنو بلکہ قائد اصلاحات بنو۔مصالحت کی پالیسی اپناؤ اہل سیاست ہوں یا مقتدرہ دونوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ وہ ہاتھ جھٹک بھی دیں تو بار بار کوشش کرو بالآخر کامیابی نصیب ہوگی۔

آخر میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہم نے تو تمہیں ہمیشہ پھولوں کی سیج پر رکھا ،آج جب تم جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہو تو ہم ماں باپ بہت زیادہ دکھی ہیں ہمارا دل اپنے اکلوتے ہیرو بیٹے کےساتھ ہے مجھے پتہ ہے تم بہت دلیر اور بہادر ہو مگر سیاست میں بہادری کےساتھ لچک کی بھی ضرورت ہے۔ لچک دکھاؤ گے تو حالات بہتری کی طرف جائیںگے۔

مجھےپتہ ہے کہ تم اس وقت شہرت کی بلندیوں پر ہو مگر شہرت ایک بڑا نازک مقام ہوتا ہے یہ شہرت پھانسی کے پھندے کی طرف بھی لے جاتی ہے اور اقتدار کی کرسی تک بھی۔محتاط قدموں سے چلو گے تو شہرت کا فائدہ ہو گا اگر قدم بے ربط ہوئے تو شہرت ہی تمہاری دشمن بن جائے گی۔

تمہاری امی

شوکت خانم

بشکریہ روزنامہ جنگ