میاں نواز شریف موجودہ پاکستانی سیاستدانوں میں سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ ان کی شخصیت کو اللہ نے بعض ایسی خوبیاں عطا کی ہیں جو کم سیاسی رہنماؤں کو نصیب ہوئیں۔ اندر سے شاید کینہ پرور ہیں لیکن ملنے جلنے میں نہایت ملنسار ہیں ۔ملتے ہوئے اپنے بدترین مخالف کو بھی بے انتہاعزت و تکریم دیتے ہیں ۔ انکی خوبی ہے کہ ملاقات کے دوران خود کم بولتے ہیں اور سوال کرکے دوسرے کو بولنے کا موقع دیتے ہیں ۔ دوسرے سیاستدانوں کے برعکس غیبت کم کرتے ہیں اور مخالف کے بارے میں سخت زبان یا گالی پر مشتمل الفاظ بھی استعمال نہیں کرتے ۔ بہت غصے میں آجائیں تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں بہت خراب انسان ہے ۔وہ عمل اور گفتگو دونوں میں نہایت محتاط ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات اچانک کوئی ایسا فیصلہ کرلیتے ہیں جو ان کی پوری شخصیت کے منافی ہوتا ہے ۔ مثلا ًجنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کا فیصلہ جس کی منطق وہ آج تک کسی کو نہیں سمجھاسکے ۔ اسی طرح محتاط انداز میں بولتے بولتے وہ بعض اوقات نہایت غیرمحتاط جملہ زبان پر لے آتے ہیں جو انکی شخصیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسا ہی عمل انہوں نے گزشتہ روز لاہور میں پارٹی منشور کی تقریب رونمائی کے دوران کیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو پختونوں سے جوڑتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی بیماری (عمران خان سے اختلاف اپنی جگہ لیکن پوری پارٹی کو بیماری قرار دینا بھی مناسب نہیں کیونکہ دیگر جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی میں برے لوگ بھی ہیں اور اچھے لوگ بھی ) خیبر پختونخوا سے آئی ہے کیونکہ خیبر پختونخوا کے بعض لوگ جلدی بے وقوف بن جاتے ہیں ۔
میاں صاحب یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ انہیں آسانی کے ساتھ دھوکہ دیا جاسکتاہے لیکن انہوں نے بے وقوف کا لفظ استعمال کیا جو سراسر زیادتی ہے ۔ اصل میں پختونوں کے ہاں قبائلی کلچر ضرورہے لیکن سرداری نظام کا وہاں نام و نشان نہیں ۔ ہر بندہ آزاد ہے اور آزادی کے ساتھ اپنی رائے قائم کرتا اور بدلتاہے ۔ پنجاب کی طرح وہ برادری ازم کا شکار ہے اور نہ سندھ اور بلوچستان کی طرح وہاں سرداری نظام ہے ۔ اس لئے وہ ووٹ دینے اور سیاسی رائے قائم کرنے میں نسبتاً زیادہ آزاد ہیں ۔یہ انکی خوبی ہے جسے میاں صاحب نے خامی بنا دیا ۔ انہوں نے ایک پہلو تو بیان کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ پختون ایک مرتبہ ووٹ دے دیتے ہیں لیکن جب کوئی توقع پر پورا نہیں اترتا تو پھر سندھ اور پنجاب کی طرح تعصب کی بنیاد پر کسی سے ہمیشہ کیلئے جڑے نہیں رہتے ۔ ماضی قریب میں پختونوں نے ایم ایم اے کی صورت میں نیا تجربہ کیا لیکن جب وہ توقع پر پوری نہ اتری تو اگلے انتخابات میں اسے دفن کرکے امن کے قیام کی آرزو میں اے این پی کو حکمرانی دی ۔ اے این پی توقع پر پوری نہ اتری تو اگلی مرتبہ وہ پی ٹی آئی کی طرف آئے ۔ پی ٹی آئی ان کی اپنی تخلیق نہیں تھی لیکن پختونوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو بھی نیا تجربہ کرتی ہے تو اس کیلئے پہلے پختونوں کی سرزمین منتخب کرلیتی ہے ۔ جس طرح مذہبی انتہاپسندی کا آغاز پنڈی، لاہور اور کراچی سے ہوا لیکن تجربہ گاہ پختونوں کی سرزمین بن گئی۔ اسی طرح پی ٹی آئی کیلئے بھی پہلی بار تجربہ گاہ پختونخوا کو بنایا گیا۔ پختونوں کے پی ٹی آئی کی طرف جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میاں صاحب نے نون لیگ کو عملاً پنجاب کی(میاں صاحب کی 2013کی کابینہ میں صرف ایک پختون وزیرتھا) اور زرداری صاحب نے پی پی پی عملاً سندھ کی جماعت بنا دی جبکہ عمران خان نے پختونخوا پر بھرپور توجہ دی ۔ خود اس گفتگو میں بھی میاں صاحب کی زبان سے ایک فقرہ ایسا نکلا کہ جس سے پتہ چلتا ہے کہ پختون بے وقوف نہیں ۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ 2013میں مولانا فضل الرحمان نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں بننی چاہئے لیکن میں نے غلطی کرکے انہیں حکومت دے دی ۔ گویا وہ خود مان رہے ہیں کہ پختون مولانا فضل الرحمان ان سے زیادہ دوراندیش ثابت ہوئے ۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پی ٹی آئی جو بقول میاں صاحب کے بیماری ہے، خیبر پختونخوا سے آئی، تاریخی طور پر غلط ہے۔ کیونکہ عمران خان لاہور میں پلے بڑھے ۔ بطور کرکٹر میاں نواز شریف نے انہیں پلاٹ سے نوازا ۔ شوکت خانم کیلئے زمین انہوں نے دی ۔ میاں نواز شریف کے سیاسی مرشد جنرل ضیا الحق نے انہیں وزارت کی پیشکش کی اور میاں صاحب نے اپنی جماعت میں آنے کی ۔ عمران خان کو سیاست میں آنے کی پٹی گولڈ اسمتھ، جنرل حمید گل اور حفیظ اللہ نیازی نے پڑھائی اور ان میں ایک بھی پختونخوا کا رہنے والا نہیں تھا۔ 2002کے انتخابات میں عمران خان نے پختونخوا سے بھی الیکشن لڑا لیکن وہاں کے لوگوں نے انہیں کامیاب نہیں کرایا اور وہ پنجاب کے ایک حلقے سے کامیاب ہوئے ۔ان کے سیاسی غبارے میں ہوا جنرل پاشا صاحب نے بھری جن کا تعلق پختونخوا سے نہیں ۔اسی طرح ان کے دھرنے جنرل راحیل شریف کے دور میں جنرل ظہیرالاسلام نے کروائے اور ان دونوں کا تعلق پنجاب سے ہے ۔ پھر نواز شریف وغیرہ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں اقتدار جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید نے دلوایا اور وہ دونوں بھی پنجابی ہیں ۔ یہ امر اپنی جگہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمرجاوید باجوہ کو کسی پختون نے نہیں بلکہ خود میاں نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا ۔ لہٰذا میاں صاحب! پی ٹی آئی کے سونامی سے پختونخوا اسی طرح زیادہ متاثر ہوا ہے جس طرح مذہبی انتہاپسندی اور عسکریت پسندی سے زیادہ متاثر ہوا ہے لیکن آپ کی یہ بات قطعاً غلط ہے کہ وہ خیبرپختونخوا سے آپ کی طرف آئی ۔ بیماری ہے یا علاج لیکن پی ٹی آئی پختونخوا سے پنجاب میں نہیں آئی بلکہ پنجاب سے پختونخوا میں گئی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ