تعصب کی عمر ایک ہزار برس نہیں ہوتی… تحریر : وجاہت مسعود


22 جنوری 2024 کا دن ہندوستان کے 25 کروڑ مسلمانوں نیز کروڑوں غیر ہندو بھارتی شہریوں کے لیے اس اذیت کا رسمی پیغام لایا کہ ان کے ملک میں جمہوریت کے نام پر ایک مذہبی اکثریت نے اختیار، فیصلہ سازی اور وسائل کی تقسیم پر اجارے کا رسمی اعلان کر دیا ہے۔ بھارت کے دستور میں 1976 میں منظور ہونے والی 42 ویں ترمیم آج بھی موجود ہے، جہاں لکھا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ یہاں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہو گا نیز ریاست تمام مذاہب کو تسلیم کرتے ہوئے کسی خاص مذہب کی حمایت نہیں کرے گی۔ تاہم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 22 دسمبر کو لکھنوکے مشرق میں کوئی سوا سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ضلع فیض آباد کے شہر ایودھیا میں 70 ایکڑ پر پھیلے رام مندر کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ یہ پل صدیوں کے طویل انتظار کے بعد آیا ہے۔ اس پل کو کھونا نہیں ہے۔ یہ انڈیا کے نئے عہد کا آغاز ہے۔ ہمیں اس وقت آئندہ ایک ہزار سال کے بھارت کی بنیاد رکھنی ہے۔ گویا بھارت کو عملی طور پر ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور تیس کروڑ سے زائد غیر ہندو دوسرے درجے کے شہری قرار پا گئے ہیں۔ پاکستان کا ایک سیکولر شہری ہوتے ہوئے مجھے اندازہ ہے کہ ہمارے ملک میں مذہبی تفرقے کے حامیوں میں اس خبر سے خوشی کی لہر دوڑ جائے گی۔ بھارت میں سیکولرازم کی موت کو ہماری زمین پر مذہبی تفریق کا جواز بنا کر پیش کیا جائے گا۔ پاکستان میں معدودے چند محب وطن آوازوں کا احساس پانچ ایکڑ کے اس بے آب و گیاہ ٹکڑے کی طرح ویران ہے جسے بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو متبادل مسجد کے لیے تفویض کیا تھا۔

6 دسمبر 1992 کی رات مجھے یاد ہے۔ روزنامہ جنگ لاہور کی تیسری منزل پر واقع دی نیوز کے دفتر میں ایڈیٹر ڈاکٹر معصوم عابدی شدید غم و غصے میں کھولتے ہوئے صفحہ اول تیار کرنے والے سب ایڈیٹر کے سر پر کھڑے تھے۔ میں کسی کام سے ادھر گیا تو مجھے دیکھ کر اشتعال اور انتباہ کے ملے جلے لہجے میں کہا شہ سرخی کے لفظوں پر اعتراض نہیں کرنا۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ میرے دل پر تو دستور پاکستان کی شق 20 اور شق 25 کندہ ہیں۔ 19 جون 2014 کو سابق چیف جسٹس محترم تصدق حسین جیلانی نے ایک تاریخ ساز فیصلے سے میرے ایقان کو قوت بخشی ہے۔ میں پاکستان میں کسی مذہبی تفریق کے بغیر ہر شہری کے یکساں سیاسی، معاشی اور معاشرتی حقوق میں یقین رکھتا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ ریاست اور اس کے شہریوں کا بنیادی منصب یہی ہے کہ ہر شہری کے حقِ عقیدہ کا غیر مشروط احترام کریں اور اس بنیاد پر کسی امتیاز یا تفریق کی پرامن مزاحمت کریں۔ میرا ضمیر صاف ہے۔ میں اپنے بزرگوں کی بخشی ہوئی مذہبی شناخت کی بنیاد پر نہیں، اپنے ضمیر کی روشنی میں رام مندر ایودھیا کی تعمیر کو دنیا بھر میں امن اور رواداری کے لیے بدترین شگون سمجھتا ہوں۔ مودی صاحب نے ایک ہزار برس تک ہندوتوا نظام کی خبر دی ہے۔ ایک ہزار برس کی ترکیب کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ 800 میں یورپ کے حکمران شارلیمان نے ہولی رومن ایمپائر کی بنیاد رکھی۔ ٹھیک ایک ہزار برس بعد یہ سلطنت نپولین کی جنگی مہموں کے دوران 1806میں دم توڑ گئی۔ دنیا بھر کے آمر اسی تاریک ہزاریے کا خواب دیکھتے ہیں۔ 10 ستمبر 1934 کو نیورمبرگ میں نازی پارٹی کی چھٹی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے ہٹلر نے اعلان کیا تھا کہ نازی سلطنت ایک ہزار برس تک قائم رہے گی۔ ٹھیک گیارہ برس بعد برلن کے بنکر میں ہٹلر کے مردہ جسم سے اٹھنے والے شعلوں میں ہزار سالہ نازی اقتدار کا خواب بھی بھسم ہو گیا۔ تعصب کی عمر ایک ہزار برس نہیں ہوتی۔ تعصب کو یکم جنوری 1863 اور 30 اپریل 1945کا انتظار کرنا چاہیے۔ نریندر مودی ایودھیا میں مندر بنا کر اگلا انتخاب تو جیت سکتے ہیں لیکن 73 سالہ نریندر مودی کو تاریخ کی حرکیات پر اختیار نہیں ہے۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی نسلی امتیاز کا خواب دیکھ رہا ہے۔ شاید ایسا ہی خواب ظہیرالدین بابر کے کمانڈر میر باقی نے بھی دیکھا ہو گا جب اس نے 1528میں بابر کی فتوحات کی یادگار میں ایودھیا کے مقام پر بابری مسجد تعمیر کی تھی۔ تب اسے 1707میں اورنگ زیب عالمگیر کی موت اور مغل سلطنت کے زوال کی خبر نہیں تھی۔

اقتدار کا بنیادی المیہ ہی یہ ہے کہ لاکھوں مشعلوں کی چکاچوند روشنی اور گلا پھاڑ کر وفاداری کا اعلان کرنے والی مخلوق کے درمیان کھڑے ہو کر مستقبل میں جھانکنا مشکل کام ہوتا ہے۔ اس کیلئے تاریخی شعور کی ضرورت پیش آتی ہے۔ آمریت اور تاریخی شعور میں ناگزیر تضاد پایا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے ملک میں تاریخ کے بہت اتار چڑھاؤ دیکھ رکھے ہیں۔ ہمارے دستور میں تو سیکولرازم کا لفظ بھی نہیں۔ ہم نے تو اجتماعی طور پر اپنے بابائے قوم کے وژن سے بھی انکار کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے بہادر بیٹوں اور بیٹیوں نے کبھی اس خواب کو مرنے نہیں دیا کہ پاکستان کے ہر شہری کو رنگ، نسل، زبان، ثقافت اور عقیدے کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر مساوی شہری کا رتبہ ملنا چاہیے۔ نریندر مودی نے پنڈت نہرو کی بصیرت سے انحراف کیا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے قائد اعظم کے دیے ہوئے رہنما اصولوں سے وفاداری نبھائی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کوئی قوم محض معیشت، آبادی اور رقبے کی بنیاد پر عظمت نہیں پا سکتی۔ قوموں کی پائیدار ترقی ایک سادہ اصول میں رکھی ہے اور وہ یہ کہ ہر شہری کو اپنے ملک میں بغیر کسی امتیاز کے مساوی رتبے اور حقوق کا احساس ہونا چاہیے۔ ایک متعصب ریاست اس احساس کو کچل دیتی ہے۔ چنانچہ ایسی ریاست ناانصافی اور تفرقے کے ناسور کا شکار ہو جاتی ہے۔ لمحہ موجود کی کامیابیوں اور اختیار کے تام جھام میں شاید یہ سمجھنا مشکل ہو لیکن ایشیا سے یورپ تک اور افریقہ سے امریکا تک نفرت کی سیاست کرنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ تعصب کی عمر ایک ہزار برس نہیں ہوتی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ