رواں سال کے اواخر میں امریکا میں بھی عام انتخابات کا یدھ پڑنے والا ہے ۔ فی الحال دو امیدوار میدان میں ہیں : ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن۔ اول الذکر پہلے بھی امریکی صدر رہ چکے ہیں اور اب پھر وہائٹ ہاوس پہنچنے کے آرزو مند ہیں ۔
ثانی الذکر ابھی امریکی صدارت کی کرسی پر براجمان ہیں۔ دونوں کے بارے میں مگر امریکی میڈیا میں بحث چل رہی ہے کہ دونوں اب اتنے بوڑھے اور سالخوردہ ہو چکے ہیں کہ انھیں امریکی سیاست کی جان چھوڑ دینی چاہیے ۔ اِس مباحثے کو فروغ دینے میں نکی ہیلی(Nikky Haley) مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔
وہ خود بھی امریکی صدارت کا الیکشن لڑ رہی ہیں۔ وہ امریکی ریاست، جنوبی کیرولینا، کی گورنر بھی رہ چکی ہیں۔ نکی ہیلی کہتی ہیں: ان دونوں بابوں( ٹرمپ اور بائیڈن) کی عمریں80برس کی ہو رہی ہیں ۔
اب انھیں امریکی عوام اور سیاست کا پنڈ چھوڑ دینا چاہیے ۔ اگلے روز ایک امریکی میڈیا نے نکی سے پوچھا: مگر دونوں میں سے کوئی ایک تو آپ کو اچھا لگتا ہوگا؟۔ نکی ہیلی نے پلٹ کر یوں جواب دیا: اگر دونوں میں سے کوئی ایک اچھا لگتا تو مجھے صدارت کا الیکشن لڑنے کی کیا ضرورت تھی ؟ یہ دونوں بڈھے ہی برے ہیں۔
مقتدرامریکی بزرگوں کے بارے میں جو بات نکی ہیلی ببانگِ دہل کہہ رہی ہیں، ایسی ہی بات وطنِ عزیز میں بلاول بھٹو زرداری کہہ رہے ہیں ۔ ان کا ہد ف نواز شریف، شہباز شریف ، مولانا فضل الرحمن اور بانی پی ٹی آئی ہیں ۔ چاروں ہی 70سال کو تجاوز کر رہے ہیں ۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ان سب کو اب سیاست چھوڑ کر اللہ اللہ کرنا چاہیے کہ یہ اب سالخوردہ ہو چکے ہیں ۔ انھیں اب سیاست کا میدان ہم ایسے نوجوانوں کے لیے خالی کردینا چاہیے ۔ ممکن ہے زیڈ اے بھٹو کا نواسہ درست ہی کہہ رہا ہو مگر وہ انسالخوردہ بابوں کی فہرست میں اپنے والد گرامی، جناب آصف علی زرداری، کو شامل کرنے سے گریز پا ہیں۔ زرداری صاحب بھی تو70کے ہندسے کو چھو رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نجانے کیوں جناب نواز شریف کا ذکر کرتے ہوئے اتنے تلخ و تند ہو رہے ہیں؟ مگر نواز شریف سراپا صبر بن کر بلاول بھٹو کے قابلِ گرفت بیانات کا جواب نہیں دے رہے۔
شہباز شریف مگر اپنے انٹرویوز اور بیانات میں بلاول بھٹو کی تنقیدات اور تنقیصات کا جواب تو دیتے ہیں ، مگر بین السطور اور اشارتا۔ مہذب اور متحمل لہجے میں ۔ بلاول بھٹو صاحب کو شائد اِس لہجے سے کچھ غلط فہمیاں ہو رہی ہیں، اس لیے ان کی تلخ نوائیاں رک نہیں رہیں۔
نون لیگ کے سیکریٹری جنرل ، احسن اقبال، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے جواں سال صاحبزادے کی ترش روئی کا جواب یوں دیتے ہیں: انڈر ٹریننگ بلاول بھٹو سے مکالمہ نواز شریف کا لیول نہیں۔ مگر حیرانی کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی ، اپنے قائد کے تتبع میں ، پھر یوں کہتے ہیں: نواز شریف کو چاہیے بلاول بھٹو زرداری سے ٹی وی پر مباحثہ کریں ۔ مجھے یقین ہے نواز شریف مباحثے میں ہار جائیں گے۔
لیجئے، بھلا ایسے بچگانہ بیان کا نون لیگ یا نواز شریف صاحب کیا جواب دیں؟ چنانچہ نواز شریف نے مناسب سمجھ رکھا ہے کہ ایسی لا یعنی باتوں کا سرے سے جواب ہی نہ دیا جائے ۔ محترمہ مریم نواز شریف نے بھی اپنے والد گرامی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کھل کر ایسی کسی بات کا جواب نہ دینے کا عہد کررکھا ہے۔ اِس خاموشی کا انہیں فائدہ ہی ہورہا ہے۔ محترمہ مریم نواز شریف محنت اور کمٹمنٹ سے اپنی انتخابی مہمات کو کامیابی سے سر کررہی ہیں۔
وہ اپنے والد صاحب کے ہمدوش رہ کر نون لیگ کے جلسے جلسوں کو کامیاب کررہی ہیں۔ انفرادی حیثیت میں اپنے جلسوں کو رونق بھی بخش رہی ہیں اور نون لیگی ووٹروں کو اپنے مرکز کی جانب بھی کامیابی کے ساتھ مائل کررہی ہیں ۔
یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ پنجاب بھر میں اب تک نون لیگ نے جتنے بھی عوامی جلسے کیے ہیں، مریم نواز شریف صاحبہ نے اِن کی کامیابیوں میں مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ وہ نون لیگ کا صحیح معنوں میں منہ متھا بن چکی ہیں ۔
غیر ملکی جریدیبلوم برگ نے23جنوری کو کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت57فیصد جب کہ نواز شریف 52فیصد مقبول ہیں ، لیکن نوازشریف تیزی سے حکومت سازی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مبینہ طور پر نواز شریف کا حکومت سازی کی جانب بڑھنا مریم نواز کے حوصلے بلند کرنے کے مترادف ہے ۔
محترمہ مریم نواز شریف کا یہ اولین انتخابی معرکہ ہوگا جو وہ8فروری 2024 کو عام انتخابات میں حصہ لیں گی ۔ انہیں اپنے والد صاحب کی جانب سے سیاست کے تجربات وراثت میں ملے ہیں؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ احسن اسلوب میں ان تجربات کو بروئے کار لا رہی ہیں ۔ ان کے راستے کی کئی رکاوٹیں از خود دور نہیں ہو ر ہیں بلکہ اِن رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے محترمہ مریم نواز شریف خود بھی نہایت محنت کرتی نظر آ رہی ہیں ۔
مثال کے طور پر21جنوری2024 کو لاہور میں این اے119کے حلقے میں ان کے مقابل کھڑے پی ٹی آئی کے معروف امیدوار ، مہر محمد وسیم، کا مریم نواز شریف صاحبہ کے حق میں دستبردار ہوجانا ۔ مہر وسیم اپنے سیکڑوں ساتھیوں کے ساتھ اب نون لیگ میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ان کا مریم نواز شریف صاحبہ کے حق میں بیٹھ جانا محترمہ مریم نواز شریف کی ایک بڑی سیاسی و انتخابی کامیابی کہی جا رہی ہے۔
8فروری کے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی مریم نواز شریف کی انتخابی کامیابی!مہر وسیم کی دستبرداری سے محترمہ مریم نواز شریف کا انتخابی راستہ مزید ہموار ہو گیا ہے۔ مریم نواز شریف نے اپنے مخالفین کو دھوبی پٹڑا مارا ہے۔
یوں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی والدہ مرحومہ کے خاندان کی جانب سے واقعی پہلوان خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اب ان کے مقابل صرف پیپلز پارٹی کاایک بڑا امیدوار رہ گیا ہے ، مگر اِسے بھی نہ ہونے کے برابر ہی سمجھئے ۔
یہ درست ہے کہ ابھی تک پنجاب میں بلاول بھٹو زرداری نے نون لیگ سے زیادہ جلسے کیے ہیں۔ میڈیا میں بھی انھوں نے کئی نجی ٹی ویوں کو تواتر سے انٹرویوز دے کر اپنی فعالیت اور لیاقت ثابت کی ہے۔ پنجاب میں ان کے کئی جلسوں کو نہایت کامیاب گردانا گیا ہے ۔جب کہ جناب نواز شریف اور محترمہ مریم نواز شریف نے میڈیا کو انٹرویوز دینے سے اعراض برت ہے۔
ان کا یہ اقدام اور فیصلہ ہماری سمجھ سے بالا ہے۔ لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ جب سے جناب نواز شریف کی قیادت میں محترمہ مریم نواز شریف جلسوں سے خطاب کرنے پنجاب بھر میں نکلی ہیں، انفرادیت اور مثالیت میں انھوں نے نئے جھنڈے گاڑڈالے ہیں ۔
بلاول بھٹو زرداری پنجاب کے ووٹروں سے گزارشات کرتے سنائی و دکھائی دے رہے ہیں کہ مجھے چاہے ایک بار موقع دے دیں مگر اِس بار مجھے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دیں ۔یوں مگر محسوس ہو رہا ہے جیسے پنجاب کا انتخابی توازن نون لیگ، نواز شریف اورمحترمہ مریم نواز شریف کے پلڑے کی جانب جھک رہا ہے ۔ آخری فیصلہ مگر 8فروری کو ہوگا ۔ نتیجہ ہم بھی دیکھیں گے ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس