گو مگو کی کیفیت ضرور، 8فروری کا الیکشن ’’ہونا‘‘ ٹھہر گیا ہے۔ بعد از الیکشن ، نظام کچھ اس طرز کا کہ جسکی ہئیت کماحقہ پہلی دفعہ متعارف ہونی ہے۔ 76سال کے قلیل عرصہ میں 32وزرائےاعظم، 4مارشل لا یعنی 3 درجن انواع و اقسام کے نظام دیکھ چکے ہیں۔ عظیم قائد نے آزادی کے موقع پر مملکت کو اسلام کی تجربہ گاہ بتایا، عظیم ڈکٹیٹر نے اس کو ’’تاحیات آرمی چیف‘‘ رہنے کی تگ و دو میںتاقیامت پریکٹس فیلڈ بنا ڈالا ۔آج ہم نظام نمبر 37آزمانے کو ہیں۔ انتخابات سر پر ،ماحول ہی نہیں بن پارہا، ایک بے دلی، بے کیفی، عدم دلچسپی کی کیفیت ہے ۔ مین اسٹریم پارٹیوں میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف ہر زبان زدِ عام، زیر بحث ہیں۔ 8 فروری کے الیکشن کے تناظر اور بلحاظ تیاری تحریک انصاف کئی مدوں میں برتر ہے۔ دو سال سے اپنے کارکنوں کو الیکشن کیلئے متحرک کر رکھا ہے۔ جلسے جلوس، لانگ مارچ، سروے پروپیگنڈہ، سوشل میڈیا کا بہیمانہ استعمال، الیکشن کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ جس مقدار میں عمران خان نے (حق یا مخالفت ) سوشل یا مین اسٹریم یا الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا پر قبضہ جمایا ہے، ماضی میں نظیر ڈھونڈنانا ممکن ہے ۔ منشور کی اہمیت نہ ہی اپنی نااہل کرپٹ بد ترین حکومت اور وعدہ خلافیوں پر جوابدہی و وضاحت، اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ نے راتوں رات مقبولیت دے ڈالی۔ یہی ایک وجہ، اِدھر الیکشن کا اعلان ہوا اُدھر عمران خان پارٹی تاش کے پتوں کا گھروندا ثابت ہوئی۔ 9مئی کا واقعہ نہ بھی ہوتا تو نتیجہ آج سے مختلف نہ رہتا۔ 9مئی شر سے خیر نکلی، انصافی قیادت سینکڑوں میں توبہ تائب یا مفرور یا جیل میں یا ریل پیل میں ، سیاست سے گلو خلاصی کیلئے انواع واقسام کے اسباب میسر رہے۔ رائے عامہ عمران خان پارٹی کو اقتدار میں لانے کی خواہش مند ضرور، آج ووٹ کے بکس سے محروم ہے ۔ پارٹی قیادت اور اکثر ٹکٹ ہولڈر اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن چکے ، اسٹیبلشمنٹ کیلئے راوی چین لکھ رہا ہے۔ جیسے ہی پارٹی کو نشان سے محروم کیا گویا کہ عمران خان کا خواب پورا، تحریک انصاف کو غلامی سے نجات مل گئی، ’’حقیقی آزادی‘‘ نصیب بننے کو۔ ایک سانحہ اور بھی، جلسے جلوس، لانگ مارچ، تقریری مواد،8 ماہ زمان پارک باہر 2ہزار کارکنان کا نان نفقہ، ٹرانسپورٹ کا بندوبست اگرچہ سب کچھ باجوہ ڈاکٹرائن کے عین مطابق، مالی لحاظ سے تحریک انصاف کنگال ہو چکی ہے۔ آدھا الیکشن، آخری دن ہی ، کروڑوں روپوں کے حساب سے پیسہ درکار ہے، جو کہ موجود نہیں ہے۔ نواز شریف سیاست پر بھی ایک نظر ، ذاتی طور پر 10 اپریل 2022 ء کے بعد سے یقین کہ ن لیگ سیاست ابدی نیند سو گئی تھی ۔ عمران اسٹیبلشمنٹ جھگڑے نے سارے سیاستدانوں کو غیر متعلق بنا دیا۔ اسکے باوجود یہ بات طے تھی کہ جب کبھی الیکشن ہوئے نواز شریف کے علاوہ کوئی اور چوائس ہونی ہی نہیں ہے۔ شروع کے سروے بھی نواز شریف سیاست بارے مایوس کن خبریں دے رہے تھے۔ حالیہ ، جب کل IPOR اور دو دن پہلے بلوم برگ کے سروے سامنے آئے تو بڑے بڑے جغادری یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نواز شریف کا گراف اوپر جا رہا ہے، عمران خان کا زعم زمین بوس ہو گیا۔ واضح طور پر اشارہ کہ 8فروری کا الیکشن نواز شریف بھاری اکثریت سے جیت رہے ہیں ۔ اگرچہ نواز شریف سیاست بارے اسٹیبلشمنٹ کے پلان کئی بار پہلے بھی تبدیل ہو چکے۔ نواز شریف صاحب کے پاکستان قدم رنجا فرما نے سے بہت پہلے ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا کہ ’’آئندہ وزیراعظم نواز شریف نے ہی ہونا ہے‘‘۔ شروع میں نواز شریف صاحب کو وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی یقین دہانی کرائی گئی۔ جون میں جیسے استحکام پاکستان پارٹی وجود میں آئی، وطنی سیاست نے ہچکولہ لیا ۔ نواز شریف اور زرداری جون ہی میں دبئی پہنچے اور سر جوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ کیا کچھ اندرون خانہ پکتا رہا، غرض نہیں۔ یکدم پیپلز پارٹی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جارحیت آگئی۔ نواز شریف واپس آئے تو 21اکتوبر کو دھاک ضرور بٹھائی، عملاً سیاست میں عدم دلچسپی نظر آئی۔ حیران کن جوڑ توڑ ، سرفراز بگٹی ، قدوس بزنجو ، فیصل واوڈا وغیرہ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت نے سیاست کو نیا رخ دیا ۔یعنی کہ مسلم لیگ ن کو اب وفاق اور پنجاب تک محدود رکھنا تھا ۔ن لیگ کووفاق میں حکومت عمران طرز کی مخلوط ہی ملنی تھی ۔نواز شریف جو اس سے قبل 8بار پارٹی ٹکٹ تقسیم کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں ، پہلی بار کئی ہفتے ٹکٹوں کے انٹرویو اور میڈیا کے ذریعے پیغام عام کرتے نظر آئے ۔کہنے میں حرج نہیں کہ وزیراعظم بننے یا حکومت لینے میں عدم دلچسپی واضح کرنے کی ایک واردات تھی ۔ تحریک انصاف کو نشان نہ ملنا، یعنی آزاد امیدواروں کی بڑی تعدادکے جیتنے کے امکانات نے گیم تبدیل کر دی ۔ازل سے فیصلہ اٹل، آزاد امیدواروں نے استحکام پارٹی میں جاناہے اور استحکام پارٹی کا ن لیگ سے الحاق ہونا ہے۔ مگر نواز شریف کیلئے ایسی سیاست میں ہر گز آسودگی نہ ہوگی۔ نواز شریف کی بڑھتی مقبولیت سے انکو قطعی اکثریت مل گئی تو یہ اسٹیبلشمنٹ کے آخری پلان کے برخلاف ہوگی۔ میری اپنی جمع تفریق میں مسلم لیگ ن کو 90/95 ، پیپلز پارٹی کو 50/55 ، آزاد امیدواران 60/70 ، جبکہ 30/35 دیگر پارٹیاں۔ نواز شریف حکومت لیں یا نہ لیں مملکت کا نظام نمبر 37 ” وکھری ٹائپ ” کا رہنا ہے ۔ پہلی دفعہ انوکھا تجربہ ، ’’مادر پدر آزاد‘‘ انتخابات کی کوکھ سے ’’مادر پدر آزاد جمہوریت‘‘ نے جنم لینا ہے۔ ’’نظام نمبر 37 ” کا شدت سے انتظار ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ