قومیں آگے بڑھتی ہیں۔
لیکن ہمیں اپنے رہنماؤں کی تقریریں پیچھے لے جاتی ہیں۔
مستقبل اتنے بے حساب امکانات لیے ہمیں قدم بڑھانے کی دعوت دے رہا ہے۔ ملک کے دگرگوں حالات بھی یہ چیلنج کررہے ہیں کہ ہم اپنے آئندہ دس پندرہ برس کیلئے معیشت زراعت، صنعت، ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری کا روڈ میپ بنائیں۔ لیکن ہمیں سردی کا اتنا خوف ہے کہ اپنے ماضی کے کمبلوں سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔
اٹھو وگر نہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ہمیں ریاست بھی ماضی میں لے جانے پر مصر ہے اور میڈیا بھی۔ ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ماضی میں ہی محصور رہنا چاہتے ہیں۔ سبق سیکھ کر تو ہمیں قدم بڑھانے ہوں گے۔ تاریخ ہمیں اپنا یرغمال بناکے رکھتی ہے جغرافیہ دور کھڑا دیکھتا رہتا ہے کہ ہم اس ماضی کی کھولی سے نکلیں گے یا نہیں۔ نئی بستیاں بسنے کیلئے تیار ہیں۔ ہماری اولادیں ماضی سے نکلنا چاہتی ہیں۔ اسی لیے وہ اجنبی ملکوں کی سفارت خانوں کے باہر ویزے کی قطاروں میں لگی نظر آتی ہیں۔ ایک حوالے سے تو یہ اچھی بات ہے کہ وہ تو نقل و حرکت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس طرح اس عظیم سر زمین میں تو ماضی کی نسلیں، ماضی کے مزاج، ماضی کی روایات ہی رہ جائیں گی۔ مستقبل تو پاکستان میں قدم نہیں رکھ سکے گا۔ اکیسویں صدی ہمارے ہاں کتنی سمٹی سمٹی، شرماتی، جھجکتی جھجکتی نظر آتی ہے۔ وہ یونیورسٹیوں میں قدم رکھتے گھبراتی ہے۔ وہ اذانیں سن کر بھی مسجدوں میں اللہ کی رحمت کے دروازے کھولنے کی دُعا کرتے ہوئے نہیں جاپاتی۔
آج 25 جنوری ہے۔ پاکستان میں ابلاغ عامہ کے معمار۔ اُردو کے محسن میر خلیل الرحمن بہت یاد آئیں گے۔ مجھ جیسے نوواردان عشق صحافت میں سے کتنوں کے رہبر۔ میں نے تو اپنے ان ہنگاموں بھرے صحافتی برسوں میں ان سے ایک اک قدم رہنمائی حاصل کی۔ آج جب حرف مطبوعہ سمٹ رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا کی دیواروں پر ویرانیاں بال کھولے سو رہی ہیں۔ نوجوانوں کا اخبار و رسائل سے رومان جاں بلب ہے۔ ہجر و وصال۔ غمزہ وادا۔ آرائش خم و کاکل سب اسکرین پر رُونما ہو رہے ہیں۔ ایسے موسم میں تو میرِ صحافت اور بقول جنرل ضیاء الحق بادشاہ ِصحافت کی وہ سب کاوشیں، خطرات مول لے کر انقلابی راستے اختیار کرنا یاد آ رہا ہے۔ ایک دکان میں جب اس اخبار کی پہلی اینٹ رکھی گئی۔ تو یقیناً اس عظیم شخصیت کے ذہن میں مستقبل کی ایک عظیم تر میڈیا ایمپائر تھی۔ ایک روڈ میپ تھا۔ ان کے خواب تھے۔ عزائم تھے۔ انہیں ایک ٹیم ملتی گئی۔ مرحلے طے ہوتے رہے۔ پل عبور ہوتے رہے۔ حکمران ناکے لگاتے رہے۔
ملک میں سیاسی بحران آتے رہے۔ لیکن اخبار کو جس جس توانائی کی ضرورت تھی۔ میر صاحب اسے سب سے پہلے حاصل کرتے رہے۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی ہوتی۔ کوئی بھی ڈیوائس (آلہ) ہوتی۔ میر صاحب اپنے محبوب ’جنگ‘ کیلئے سب سے پہلے حاصل کرتے۔ ان کی بصیرت، پیش بینی، مستقبل کے ادراک کا سب سے بڑا نشان۔ برقی خوش نویسی ہے۔ کمپیوٹر اور اُردو کا وصال۔ تحقیق اور تشکیل میں تو احمد جمیل مرزا اور مطلوب الحسن سید مصروف تھے۔ مگر ان کے حوصلے کو تقویت میر خلیل الرحمن کی سرپرستی اور استقامت سے مل رہی تھی۔ جب دوسرے میڈیا گروپ آئندہ پر اعتماد نہ کر سکے۔ ماضی سے ہی چمٹے رہے۔ اس وقت میر صاحب مستقبل میں جھانک رہے تھے۔ یہ پروگرام بہت مہنگا خریدا گیا۔ ان کی اس مستقبل شناسی سے اُردو زبان کیلئے کتنے نئے دروازے کھل گئے۔ اُردو اخباری صنعت۔ اُردو اشاعتی مراکز کیلئے ۔ صنعت و حرفت میں اُردو عبارت کیلئے اُردو ٹی وی چینلوں۔ سوشل میڈیا۔ موبائل فون پر اُردو کی بورڈ کیلئے آفاق تسخیر ہوتے رہے۔
آئیے اس محترم و مکرّم ہستی کی درجات کی بلندی کیلئے دل کی گہرائی سے دعا کریں۔ پاکستان میں تہذیب، معاشرت، تمدّن، شائستگی، ابلاغ عامہ، آزادیٔ اظہار ہی نہیں بلکہ ایک نو آزاد ملک کے استحکام اور ایک متحرک، فعال معاشرے کی تشکیل میں بھی میر خلیل الرحمن کا ایک تاریخی کردار ہے۔
آج 2024 کے الیکشن میں صرف 13دن رہ گئے ہیں۔ ہر الیکشن میں شہر قائد اور پاکستان کے پہلے دارُالحکومت کراچی کا ایک مرکزی کردار ہوتا تھا۔ قومی سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں مقتدر قوتوں کو بھی کراچی سے اندیشہ ہائے دور دراز ہوتے تھے۔ اسی لیے گزشتہ دو دہائیوں میں مل جل کر ایسے منصوبے اور آج کی اصطلاح میں ایسے ’سافٹ ویئر‘ بنائے گئے کہ اس الیکشن میں کراچی سے وہ حساسیت اور مرکزیت وابستہ نظر نہیں آتی۔ کراچی اب کسی ایک کا نہیں رہا ہے۔ کراچی کے 22قومی انتخابی حلقوں کیلئے 581امیدوار میدان میں ہیں۔ کراچی کے سات اضلاع، جنوبی، شرقی، غربی، سینٹرل، ملیر، کورنگی اور کیماڑی میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ اگرچہ ماضی کی انتخابی معرکوں کی طرح کا جوش و خروش نظر نہیں آتا ہے۔ کراچی کی حیثیت اگرچہ استنبول، بمبئی، نیو یارک، مانچسٹر کی طرح ہی ہے۔ لیکن مسلسل کوششوں کے ذریعے اس کی سیاسی اور سماجی حیثیت کم کی گئی ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے بہت سوچ سمجھ کر محبت سے وفاقی دارُالحکومت کا درجہ دیا تھا۔ آپ اگر غور کریں تو کراچی میں جب تک دارُالحکومت رہا ہے تو ملک مسلسل صنعتی، اقتصادی ترقی کرتا رہا ۔ بندرگاہ مصروف رہی۔ بازار زر اگلتے رہے۔ ملک دو لخت ہونے کا کوئی شائبہ بھی نہیں تھا۔ لیکن بلدیاتی اداروں سے اختیار چھینے گئے۔ انکے انتخابات تسلسل سے نہیں ہوئے۔ پہلے لالو کھیت میں یہ قوت تھی کہ وہ مرکزی حکومت بدل دیتا تھا۔ پھر انتخابی قوت سے 1988سے 2008تک کے عرصے میں اسلام آباد میں اقتدار کی چابی کراچی کے پاس رہی۔ وزیر اعظم 90 پر حاضری کے بعد ہی حلف اٹھانے کی پوزیشن میں آتا تھا کراچی اقتصادی، ابلاغی، تہذیبی طور پر تو دارُالحکومت اب بھی ہے۔ لیکن اس کی سیاسی طاقت سبوتاژ کر دی گئی ہے۔ کراچی کے دل جیتنے کے مواقع پاکستان پیپلز پارٹی بھی اب تک گنوا رہی ہے۔ سب سے زیادہ امکانات اس پارٹی کیلئے تھے اور ہیں۔ لیکن اس کیلئے منظم کوششیں نہیں رہی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ میں شگاف ڈالنے والوں نے شگاف بھرے ہیں لیکن بند پہلے کی طرح مضبوط نہیں ہے۔ قائد تحریک الطاف حسین کی طرح کوئی دل کا چین نہیں بن سکا ہے۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب اتنے جواں سال ہیں کہ وہ اس شہر پر باپ کی طرح دست شفقت نہیں رکھ سکے ہیں۔
کراچی کو اس کی عظمت رفتہ کون واپس دلائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ کراچی کی سطوت کی بحالی میں ہی پاکستان کی شوکت کی بحالی ہے۔ فیصلہ کرنا ہے کہ ووٹ ماضی کا یا مستقبل کا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ