الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ برقرار۔سپریم کورٹ کا جے یو آئی امیدوارعبدالحفیظ لونی کوانتخاب لڑنے کی اجازت دینے سے انکار

اسلام آباد(صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے بلوچستان ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل کی جانب سے نیب کیس میں پانچ کروڑ روپے جرمانہ ادانہ کرنے پر نااہل قراردیئے جانے واے جمعیت علماء اسلام (ف)کے امیدوار برائے قومی اسمبلی حلقہ 252عبدالحفیظ لونی کوانتخاب لڑنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے لوگ بلوچستان کے غریب عوام کی نمائندگی نہ ہی کریں۔ چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آرام کریں تھوڑا ساابھی ہم نے آپ کے پیسے بچانے ہیں۔ پانچ کروڑ روپے جرمانہ جمع کروادیں پھر الیکشن لڑ لیں، جس چیز پر انحصار کررہے ہیں وہ تودکھائیں، ہمیںنہیں پتا جب تک کوئی چیز نہیں دکھائیں گے ہم مفروضوں پر نہیں جائیں گے۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ 10سال قید بامشقت اورپانچ کروڑ روپے جرمانہ ہوا اورجرمانہ ادانہ کرنے کی صورت میں مزید اڑھائی سال جیل کاٹنا تھی۔

یہ نیب سزا کا کیس ہے ، دوسال بعد چھوٹ گئے ،10سال سزاہوئی تھی پانچ کروڑ روپے کرپشن کاحصہ ہے وہ بھی نہیں دیئے، اگر جرمانہ ادانہیں ہواتوالیکشن نہیں لڑسکتے یہ نیب قانون کاحصہ ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بلوچستان ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل کی جانب سے جے یو آئی (ف)کے امیدوار برائے قومی اسمبلی حلقہ این اے 252عبدالحفیظ لونی کونیب کیس میں ہونے والے پانچ کروڑ جرمانے کی رقم ادانہ کرنے پر نااہل کئے جانے کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزارسابق صوبائی وزیر بلوچستان کی جانب سے محمد ایواززہری بطور وکیل پیش ہوئے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ آفیسر نے منظور کئے تھے جبکہ بلوچستان ن ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل نے ڈیفالٹ پر مسترد کئے۔ اس پر جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے جرمانہ جمع نہیں کروایا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کتنا جرمانہ تھا۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ پانچ کروڑ جرمانہ تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرام کریں تھوڑا سا، ابھی ہم نے آپ کے پیسے بچانے ہیں، سزاقبول کرلی ، جرمانہ نہ دینے پر اڑھائی سال سزاکاٹی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مئوکل 2سال6ماہ6دن جیل میں رہے باقی پیرول پر رہا رہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پانچ کروڑ روپے جمع کروائیں پھر الیکشن لڑیں، جس چیز پر انحصار کررہے ہیں وہ تودکھائیں، ہمیں نہیںپتا جب تک کوئی  چیز نہیں دکھائیں گے،ہم مفروضوں پر نہیںجائیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کی جانب سے 10سال سزا ہوئی اورپانچ کروڑ روپے جرمانہ ہوا، جرمانہ جمع نہ کروانے پر مزید اڑھائی سال جیل میں گزارنا تھے جو کہ کل ساڑھے12سال بنتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ ڈیفالٹ کا ایشونہیں ہے عدالت نے جائیدادضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مئوکل کی کوئی جائیداد نہیں۔ جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ نیب سزاکا کیس ہے دوسال بعد چھوٹ گئے ،10سال سزاہوئی تھی ، 5کروڑ روپے کرپشن کا حصہ تھا وہ بھی نہیں دیئے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کل 5کروڑ کی ڈگری آپ کے خلاف آئی۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اگرجرمانہ ادانہیں ہواتو الیکشن نہیں لڑسکتے یہ نیب قانون کاحصہ ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے اسفسار کیا کہ درخواست گزارکب اورکس اسمبلی کے ممبر رہے۔ اس پر وکیل نے بتایا کہ 1997میں بلوچستان اسمبلی کے ممبر رہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو جوپیرول پررکھا گیا وہ ختم ہو گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا ہمیں پتا ہے کس طرح پیرول پر رہتے ہیں، اگر آپ وزیر ہوں تو تعلقات کی بنیاد پر پیرول پر رہ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے شوکاز کس چیز کا دینا تھا ، جرمانہ دے دیں اورالیکشن لڑلیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ بلوچستان کے غریب عوام کی نمائندگی نہ ہی کریں۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے قراردیا کہ ڈویژن بینچ بلوچستان ہوئی کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ برقراررکھا اوردرخواست گزار کوالیکشن لڑنے کے لئے نااہل قراردیا گیا،

درخواست گزار8فروری کوہونے والے انتخابات میںحصہ لینا چاہتے ہیں۔ درخواست گزارکوکرپشن پر سزا ہوئی، احتساب عدالت نے قومی احتساب بیوروآرڈیننس 1999کی شقوں10،11اور12کے تحت 10سال قید بامشقت اور5کروڑ روپے جرمانہ کیا۔ جرمانہ ادانہ کرنے پر جائیدوادضبط کرنے کا حکم دیا اورجرمانہ ادانہ کرنے پر مزید اڑھائی سال قید کی سزاسنائی۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے 29نومبر 2002کو درخواست گزارکوپیرول پررہا کرنے کا حکم دیا۔ درخواست گزارکل 2سال6ماہ اور6دن جیل میں رہے۔ درخواست گزار نے جرمانہ ادانہیں کیا اس لئے وہ الیکشن لڑنے کے لئے نااہل ہیں۔ عدالت نے درخواست گزار کی جانب سے الیکشن ٹر یبونل کے فیصلے خلاف دائر درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔