ملک میں آٹھ فروری کو عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے ابہام کافی کم ہو گیا ہے۔ لیکن اب بھی ایسے دوست موجود ہیںجو کہتے ہیں آپ کو نہیں معلوم، کوئی ایک بڑا واقعہ ہو گا اور انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔
اب اس کا ہم سب کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، مستقبل میں کیا ہو گا، کوئی نہیں جانتا۔ البتہ ہمارے یہ دوست کم از کم یہ تو مان گئے ہیں کہ کسی بڑے واقعے کے سوا عام انتخابات ملتوی ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
چند دن پہلے ایران سے جب کشیدگی ہوئی تھی تو میرے ان دوستوں کو یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ یہی وہ بڑا واقعہ جس کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں، میرے ان دوستوں نے مجھے پھر یقین دلانا شروع کر دیا تھا کہ پاک ایران کشیدگی کی وجہ سے عام انتخابات ملتوی ہو رہے ہیں۔ جب پاکستان نے ایرانی جارحیت کا بھر پور جواب دیا تو میرے یہ دوست مجھے یقین دلا رہے تھے کہ دیکھیں انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔
اگلے دن جب نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ رکھی گئی تو میرے دوست مجھے یقین دلا رہے تھے کہ اس میٹنگ میں انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان ہو جائے گا، میں دوستوں سے درخواست کرتا رہا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل میں انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن وہ نہیں مان رہے تھے۔پھر جب پاک ایران کشیدگی کم کرنے کا اعلان ہو گیا تو میرے دوست بہت نا امید ہو گئے۔ لیکن اب بھی وہ کہتے ہیں کہ انتخابات ملتوی ہو جانے ہیں۔
بہر حال دوست عام انتخابات کے وقت پر انعقاد پر یقین کرنے کے قریب پہنچ رہے ہیں ، اب وہ ایک اور موقف اپنا رہے ہیں کہ دیکھیں الیکشن کا ماحول نہیں بن رہا، جلسے، ریلیاں نہیں ہو رہی ہیں۔ میں نے کہا بلاول کو دیکھیں، روزانہ عوامی اجتماعات سے خطاب کر رہا ہے۔ لیکن یہی جواب دیا جاتا کہ باقی سب جماعتیں خاموش ہیں۔
سب سے بڑا سوال تھا کہ نواز شریف کیوں باہر نہیں نکل رہے؟ میرے یہ دوست نواز شریف کے جلسہ نہ شروع کرنے کو انتخابات نہ ہونے کا سب سے بڑا اشارہ قرار دیتے تھے۔ لیکن پھر نواز شریف نے حافظ آباد میں جلسہ کر دیا۔ دوستوں سے پوچھا کہ بھائی یقین آگیا ہے کہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ کہنے لگے، دیکھیں نواز شریف نے حافظ آباد میں جلسہ کیا ہے۔ لیکن دیکھیں تقریر صرف دس منٹ کی ہے۔نواز شریف کو دل سے پتہ ہے کہ انتخابات نہیں ہو رہے۔
اس لیے انھوں نے کوئی لمبی تقریر ہی نہیں کی۔ میں نے کہا دھند کا موسم ہے۔ موٹر وے بند ہو جاتی ہے۔ ہیلی کاپٹر اڑ نہیں سکتا۔ ایئر پورٹ بند ہو جاتے ہیں۔ جلدی واپس آنا تھا۔ لیکن دوست نہیں مان رہے تھے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مانند انھیں نواز شریف کی دس منٹ کی تقریر سے بھی انتخابات ملتوی ہونے کا اشارہ مل رہا تھا۔
بہر حال دوستوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے نواز شریف نے مانسہرہ میں ایک بہت بڑا جلسہ بھی کر دیا ہے۔ اور ایک بھر پور تقریر بھی کر دی ہے۔ میں نے دوستوں سے پوچھا، اب کچھ تسلی ہوئی ہے۔ وہ بولے، اب ماحول بن رہا ہے لیکن ہم غیر معمولی واقعے والی بات پر اب بھی قائم ہیں۔ میں نے کہا، پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ والی بات ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان نے کئی برس کے بعد ایک بڑ ا جلسہ عام کیا ہے۔
متحدہ کے جلسے نے کراچی میں انتخابی ماحول میں گرمی پیدا کر دی ہے۔ کچھ اور دوست، یہ وہ دوست نہیں ہیں جو انتخابات ملتوی کرانے کی ضد کرتے رہتے ہیں ، یہ وہ دوست ہیںجو یہ بتاتے تھے کہ ایم کیو ایم پاکستان اب ختم ہو چکی ہے، اصل طاقت تو ایم کیو ایم لندن ہے۔ جب تک وہ متحدہ کے ساتھ نہیں آئے گی ، وہ سیاسی طاقت حاصل نہیں کر سکتی۔
ایم کیو ایم کے جلسے کے بعد میں نے اپنے ان دوستوں کو بھی فون کیا، بھائی یہ کیا ہوگیا؟ ایم کیو ایم پاکستان نے تو ٹھیک ٹھاک بڑا جلسہ کر دیا ہے۔وہ خاموش ہی رہے۔ شاید وہ بھی حیران ہی تھے کہ یہ کیسے ہوگیا۔
میرے ان دوستوں کو امید تھی کہ ایم کیو ایم لندن نے بائیکاٹ کرنے کے بجائے اپنے امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑے کر دیے ہیں، میں دوستوں سے ان امیدواروں کے بارے میں بہت پوچھتا ہوں کہ بھائی ان میں سے کتنے جیت رہے ہیں؟ لیکن شاید معاملہ الٹ ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اپنی کھوئی ہوئی سیاسی طاقت واپس حاصل کر رہی ہے۔
بہر حال دوستوں کی حیرانی اور پریشانی کے لیے ایم کیو ایم کراچی نے بھی جلسے شروع کر دیے کراچی میں انتخابی ماحول بنا دیا ہے۔ بلاول کی گفتگو سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ ملک میں بھر پور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے شروع کیا تھا۔ لیکن وہ اکیلے ماحول بنانے میں ناکام رہے۔
ان کے جلسوں کے بعد بھی یہ سوال رہا کہ ماحول نہیں بن رہا۔ لیکن اب جب سیاسی جماعتوں نے مہم شروع کر دی ہے تو ماحول بنتا سب کو نظر آرہا ہے۔ کے پی اور بلوچستا ن کے مخصوص حالا ت کی وجہ سے وہاں ہم ویسے ماحول کی توقع نہیں کر سکتے جیسا پنجاب اور سندھ میں ہے۔ ایک تو وہاں موسم بہت سرد ہے پھر امن و امان کے معاملات بھی ہیں۔
اس لیے وہاں ویسی مہم ممکن ہی نہیں۔ یہ بات تو مولانا ہمیں بتاتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن ہزارہ ڈویژن میں متحرک ہے ، بلاول وسطی خیبر پختونخوا میں جلسے کررہے ہیں، اے این پی بھی جلسے کررہی ہے ،ان کی انتخابی سرگرمیوں کی خبریں آرہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ سب کو اگلے چند دنوں میں انتخابی ماحول مزید بنتا نظر آجائے گا اور چند دن بعد یہ سوال بالکل ختم ہو جائے گا کہ انتخابی ماحول نہیں بن رہا ہے۔
سیاسی جماعتیں اگلے دو ہفتے خوب زور لگائیں گی۔ منشور بھی آرہے ہیں۔ جن دوستوں کو یہ گلہ تھا کہ منشور نہیں آرہے،ان کا انتظار بھی ختم ہونے کو ہے۔
سب کے منشور تیار ہیں۔ وہ بھی عوام کی عدالت میں آجائیں گے۔ لیکن میں اپنے ان دوستوں کا کیا کروں جو اب بھی کسی بڑے غیر معمولی واقعے کے انتظار میں ہیں تاکہ انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔ یہ آٹھ فروری کے دن بھی ایسی ہی باتیں کر رہے ہوںگے۔
حکومت بن جانے کے بعد بھی شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہوںگے۔ اس لیے میں نے اب ان کی سننی کم نہیںکی بلکہ چھوڑ ہی دی ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس