قومی زبانوں کا اشتراک اور لوھڑی تہوار : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


ہماری تمام مادری زبانیں ہماری قومی زبانیں ہیں کیونکہ یہ اُن قوموں کی زبانیں ہیں جنکی جھولیاں ہزاروں سال پر محیط ادبی اور ثقافتی ورثہ سے بھری ہوئی ہیں۔ اسلئے انہیں علاقائی یا مقامی زبانیں کہنا گمراہ کن ہے۔ ہمارے ہاں اردو اور اس خطے کی زبانوں میں ایک عجیب سا کھچاؤ چلا آ رہا ہے اور وقت گزرنے کیساتھ یہ کھچاؤ کم نہیں ہوا بلکہ بڑھتا رہا ہے۔ اردو کے کچھ چاہنے والے دوسری زبانوں کو دبانے میں مصروف ہیں اور دوسری زبانوں کے کچھ خیر خواہ اردو کو بالکل بے دخل کرنے کے داعی۔ ایسے میں کوئی درمیانی راستہ بہت ضروری کہ اردو بھی اب ہماری زمینوں میں سرایت کر کے اتنی ہی قریبی اور قومی زبان بن چکی ہے جتنی کہ ہزاروں سال پرانی دیگر زبانیں۔ اردو میں مختلف مادری زبانیں بولنے والوں نے اعلیٰ سطح کا جو ادب تخلیق کیا ہے اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ خلیج کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر کانفرنسز، میلے، سیمینار، مشاعرے اور تقاریب، خانوں میں بٹی ہوتی ہیں کوئی میلہ الف سے یہ تک انگریزی کے رنگ میں رنگا ہوتا ہے، کوئی اردو اور کوئی پنجابی یا دیگر زبانوں کی ترجمانی کرنیوالا۔ ایسے میں ہر صوبے میں دونوں زبانوں کے لکھنے والوں کے درمیان ایک اسٹیج پر اشتراک اور مکالمہ کم ہی ہوتا ہے۔ تخلیقی سطح پہ ایک دوسرے کی تحریروں کی پذیرائی نہیں ہوتی۔ دونوں کو ایک اسٹیج پر لانا بہت ضروری ہے۔ اسکی بڑی اچھی مثال پچھلے دنوں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے اشتراک سے منعقدہ مشاعرے میں دیکھی گئی۔

یہ مشاعرہ اردو اور پنجابی زبان میں ریکارڈ کیا گیا جس میں اردو اور پنجابی کے نمائندہ شعراء کو مدعو کیا گیا تھا صدارت بابا نجمی نے کی، نظامت بھی دونوں زبانوں میں ہوئی۔ دونوں زبانوں کے شاعروں نے ایک دوسرے کی کھل کر پذیرائی کی۔ یہ تخلیقی سطح کا ملاپ بہت عمدہ اور بےمثال تھا جس کی شاباش وفاقی وزیر مرتضی سولنگی صاحب کو جاتی ہے جن کے کہنے پر یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ لاہور میں منعقدہ فکری میلے میں ان سے پنجابی زبان میں کھل کر بات ہوئی جس سے اندازہ ہوا کہ وہ کئی زبانیں جانتے ہیں۔ہماری زبانیں ہمارے کلچر اور تہواروں سے جڑی ہوئی ہیں۔ پنجاب دھرتی کا ایک تہوار لوھڑی جو کہ پنجاب کے دونوں حصوں میں ایک جیسی عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ بڑا عرصہ پاکستانی پنجاب کو اس سے دور رکھا گیا حالانکہ یہ اسی دھرتی سے جنم لینے والا تہوار ہے اور اس کے پسِ پشت عورت کی تکریم اور انسانی قدروں کی ترویج ہے۔ ہمارے تہوار فصلوں کی کٹائی اور موسموں کو خوش آمدید کہنے سے جُڑت رکھتے ہیں۔انسان خوشی کے اظہار میں اجتماعی طور پر جو عملی سرگرمیاں کرتے ہیں وہ ان کی ثقافت بن جاتے ہیں۔ گانا، رقص، بھنگڑا وجود کے اندر ٹھاٹھیں مارتے جذبات کی عکاسی ہے۔ لوھڑی بھی خوشی کا تہوار ہے یہ سردی کی ٹھٹھرتی، اداس اور تنہائی کی شکار راتوں کا جمود توڑ کر ہلہ گُلہ اور ہلچل کے ذریعے لہو گرمانے کا عوامی جشن ہے۔ پنجاب اور کشمیر سمیت کئی علاقوں میں منایا جاتا ہے۔ جبر کی بیشمار کارروائیوں میں قربانی کی ایک مثال قصے کا روپ دھار کر ہمیشہ کیلئے دلوں میں نہ صرف سرایت کر جاتی ہے بلکہ متعصب سوچ کے صحن میں آفاقی قدروں اور محبت کی طرف راغب کرنے والی خوشبو کے بیج بھی بو دیتی ہے۔ لوھڑی تہوار کو جنم دینےوالا واقعہ منفی سوچ کو مثبت میں بدلنے کی جرات مندانہ کہانی ہے۔اکبر کے ایک مسلمان درباری نے ایک کنواری ہندو لڑکی کو اغوا کر لیا جو دلے بھٹی کے علاقے سے تھی۔

دھرتی کی قدروں کے رکھوالے کو مدد کیلئے آواز دی گئی۔وہ پہنچا اور اس لڑکی کو اغوا کاروں سے نجات دلا کر جنگل میں اپنے ڈیرے پر لے گیا۔اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ہندو لڑکے سے اس شادی کر دی،شادی کی رسومات کیلئے دلے بھٹی نے آگ جلا کر باپ اور پنڈت کا کردار نبھایا اور جہیز میں شَکر اور تِلوں کا تحفہ دیا، دلے بھٹی نے پھیروں کے دوران شادی کے منتر کی بجائے جو دعائیہ باتیں کیں ،وہ لوگوں کے دلوں سے ہوتی ہوئی گیت کا روپ دھار گئیں اور محبت کی فضاؤں میں گونجنے لگیں۔مذہبی رواداری کی علامت لوھڑی کا تہوار پنجابی مسلمان، ہندو اور سکھ ایک جیسے شوق اور عقیدت سے مناتے ہیں۔ دن میں مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور شام کو رات گئے تک الاؤ کے گرد دُلے بھٹی کی یاد میں لوھڑی کے گیت گاتے اور رقص کرتے ہیں۔ لوھڑی سردیوں کی کالی یخ راتوں میں گرمی اور روشنی کی لَو ہے جو دلوں کو محبت اور رواداری سے جگمگاتی ہے۔رقص ،حرکت، عمل اور جدوجہد کا استعارہ ہے اور یہ سب زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں۔ تہواروں کو منائیں کہ زندگی کا احساس جاگتا رہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ