آپریشن مرگ برسر مچار! : تحریر حفیظ اللہ نیازی


لگتا ہے، الیکشن ’’وڑ‘‘ چکے۔ وزیراعظم پاکستان بیرون ملک اپنا دورہ چھوڑ کر واپس پہنچنے کو ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ پہلی ترجیح ہوگی۔ قوی امکان کہ صدر مملکت کو وزیراعظم ایمرجنسی کی سمری بھیج دیں گے۔ ایسی صورت میں الیکشن کا انعقاد خطرے میں پڑ جائیگا۔ باوجود یکہ پاکستان کی افغانستان یا ایران سے جنگ کی کوئی گنجائش نہیں، پاکستان کا ردِ عمل ٹھیک ٹھاک اور ناگزیر تھا، اب معاملات ٹھیک کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ جوابی حملہ اشد ضروری اور مجبوری کہ ایران نے ہمیں بند گلی میں دھکیل دیا۔ 24 گھنٹے کے اندر جواب ہی تو حمیتِ قومی کا تقاضا تھا۔ ایسا ملک جو ہر مشکل میں پاکستان کیساتھ ڈٹ کر کھڑا رہا، دو مسلمان بھائی ایک دوسرے پر گولہ بارود برسائیں ناقابلِ یقین اور ناقابلِ بیان ہے۔ ایرانی جارحیت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ یقین ہے دونوں ممالک مل بیٹھ کر حل نکالیں۔ غلط فہمیاں دور ہونگی اور دوبارہ سے جڑ جائینگے۔ دلجمعی سے سمجھتا ہوں، واقعہ کا تعلق غزہ میں جاری جارحیت سے ہے، محیرالعقول اور انتہائی پیچیدہ ہے۔ غزہ جنگ آج بحیرہ احمر میں داخل ہوچکی ہے ۔ لبنان اور یمن کو لپیٹ لیا ہے۔ اہم ترین بحری تجارتی و تزویراتی گزرگاہ بحیرہ احمر ہی ہے، اس وقت یمنی حوثیوں کے حملوں کی زد میں ہے ۔ امریکی اسرائیلی بحری بیڑے روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بن رہے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی اشارہ ابرو پر وجود پانے والا اسلامی ممالک اتحاد، جنرل راحیل شریف کمانڈر، حوثیوں کیخلاف ہی تو تھا ۔ کچھ نہ بگاڑ سکا، حوثیوں کی شرائط پر جنگ بندی ہوئی۔

حقیقت یہ بھی کہ مسلمانوں پر تسلسل سے ڈھائے امریکی مظالم کیخلاف اکیلا ایران ہر جگہ دامے درمے سخنے موجود تھا۔ مصری اخوان المسلمین، حماس، حزب اللہ، افغان مجاہدین، حوثی تحریک یا شام حکومت کا بچاؤ، امریکہ خلاف ہر مزاحمت تحریک کا تن من دھن سے مددگار بنا۔ اگر حماس چار ماہ سے کسی طور اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے، تو اسکا کریڈٹ ایران کو ہی جائیگا۔ یہ امکان موجود کہ روس بھی شاملِ حال ہو۔ 1978ء سے ایران پر امریکی مظالم کی داستان رقم کریں تو کاغذ قلم چور چور ہو جائیں۔ ایران نے کیا سرنگوں ہونا تھا، کئی دوسرے اسلامی ممالک ( فلسطین، یمن، شام، عراق ) کی آزادی کیلئے اپنی اوقات سے بڑھ کر حصہ ڈالا۔ اگر آج حماس امریکہ اسرائیل اور یورپ کی مشترکہ طاقت سے نبردآزما ہے تو ایرانی تعاون، بڑھ چڑھ کر موجود ہے۔ عزالدین القسام بریگیڈ نے جب دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا، ماہرانہ حکمت عملی کیساتھ اسرائیلی تاریخ میں پہلی بار صہیونیوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ چار ماہ سے اسرائیل پاگل ہو چکا ہے ، بے گناہ بچے بوڑھوں کا قتل عام کر رہا ہے مگر کامیابی سے کوسوں دور ہے۔ چند ماہ پہلے نابغہ روزگار جغادری کے وہم و گمان ، خواب و خیال میں نہ تھا ۔ اسرائیل ” ہائے تنہائی نہ پوچھ “، ( امریکہ و برطانیہ یک جان ساتھ )، آج علیحدہ ہونے کی صورت گری کر رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ سمیت 150 ممالک سراپا احتجاج ، ساؤتھ افریقہ عالمی عدالت میں جنگی جرائم پر اسرائیل کیخلاف مدعی ، درجنوں ممالک ساتھ شامل ہیں ۔ حیف ! ایران کے علاوہ ، کوئی ایک اسلامی ملک بھی سامنے نہیں جو غزہ جنگ میں ڈٹ کر امریکی اسرائیلی جارحیت کو للکار پاتا ۔ دو رائے نہیں کہ ایران نے پاکستان پر حملہ کر کے حماقت اور زیادتی کی ہے ۔ تنگ آمد بجنگ آمد! جواباً پاکستان کا 7 میزائل داغنا عین حق و انصاف پر مبنی ہے ۔قوم کو صدمہ سے نکالنا ، ریاست کا فرض اولین تھا ۔ پاکستان ایران تناؤ ، ایسی انہونی کیونکر ممکن ہوئی ؟ تانے بانے یقینی طور پر غزہ جنگ سے ہی جڑیں گے ۔ ذہن نشین رہے ، ایران عراق خلیجی ممالک کا تیل 80فیصد ( پوری دنیا کو ایکسپورٹ ہونے والے تیل کا 35 فیصد ) خلیج فارس یا آبنائے ہرمز سے جاتا ہے ۔ اسرائیل امریکہ گٹھ جوڑ کا دوسرا دردِ سر ، خلیج عدن ، بحیرہ احمر بمع سوئیز کینال جو دنیا کی اہم ترین تجارتی اور تزویراتی گزرگاہ ہیں ۔ جنگ کی صورت میں بہت بڑا اقتصادی بحران پیدا ہوگا ۔ امریکہ جان پر کھیل کر یہاں اپنا قبضہ مضبوط رکھے گا ۔ اس گزرگاہ سے گزرنے والے تمام جنگی یا تجارتی بحری بیڑے آج یمنی حوثیوں کی زد میں ہیں ۔ کسی وقت بھی بحیرہ احمر کو بند کر سکتے ہیں ۔ جنگ پھیلنے کی صورت میں روس چین بھی لڑیں گے ۔ ایک دو جہاز روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بن رہے ہیں۔ ان حوثیوں کے حملوں کا ذمہ دار امریکہ اسرائیل ایران کو ٹھہرا رہے ہیں ۔ لبنان سائیڈ سے حزب اللہ نے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر رکھی ہے ۔ اسرائیل کے اندر القسام بریگیڈ قابو سے باہر ہے ۔پچھلے 20سالوں میں افغانستان، عراق، لیبیا، شام، مصر، یمن میں امریکی جارحیت اور یلغاروں نے کہرام مچا رکھا ہے، ہر جگہ مزاحمت کا سامنا تھا ۔ شام اور یمن میں ایران کی مدد سے امریکہ اور اسکے حواریوں کو بے آبرو کیا۔ امریکہ کو مشکلات میں ڈالنے والے جنگجوؤں کو یقینا روس کا اسلحہ اور چین کے دام میسر رہے ہونگے۔ 2014ء، شام کی جنگ میں روس شامل ہوا تو عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ صدر پیوٹن نے بعد میں خود اعتراف کیا کہ ہم اپنا ہاتھ ایٹمی بم کے بٹن پر رکھ چکے تھے۔ جب سے حوثی ، حماس کی مدد میں متحرک ہوئے ہیں، بحیرہ احمر کی گزرگاہ غیر محفوظ اور جنگ پھیلنے کا خطرہ سر پر آن کھڑا ہے۔ حوثیوں اور حزب اللہ کو کمزور کرنے کیلئے ، امریکہ کا انگ انگ ایران پر حملہ کرنے کیلئے ٹوٹ رہا ہے۔ جملہ معترضہ کہ چند سالوں سے چین نے خلیجی ممالک، ایران کیساتھ کس سلیقہ سے مثالی تعلقات کی بنیاد رکھی، تمام ممالک میں صلح کرائی تو خطہ میں چین کا اثرو رسوخ بڑھ چکا ہے۔ امریکہ آبنائے ہرمز کے اردگرد تیل کے ذخائر کا اکلوتا دعویدار ، متزلزل ہو چکا ہے۔ امریکہ کی پہلی ترجیح ایران اور پاکستان کو آپس میں الجھانا ہے۔ پاکستان ایران لڑائی کا ایک نقصان کہ جنگ میں غزہ پر ڈھائے گئے مظالم سے توجہ ہٹ جائیگی۔ دوسری طرف ایران کو اپنے تئیں ہی عراق ایران جنگ طرز پر نئی الجھن میں بھٹکانے کی کوشش ہے۔ ایران دشمنوں کی ایران کو کمزور کرنا یا مصروف رکھنا ایک کامیاب حکمت عملی ہے۔ دبے لفظوں میں کوئی ملی بھگت بھی کہ ایران امریکہ کے ہاتھوں انجانے میں استعمال ہو گیا ہے ۔ امید ہے کہ عقل غالب آئیگی ۔ ایران اور پاکستان اس تنازعہ کو فوراً حل کرینگے، ماضی کی طرح مثالی بھائی بن کر رہیں گے ۔ خطہ میں امن ہم سے زیادہ ایران کی ضرورت، عملی اقدامات اٹھانا پاکستان کی ذمہ داری ہے ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ