پی ٹی آئی کو نئے چیلنچ کا سامنا : تحریر انصار عباسی


بلّا چھینے جانے کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیں گے۔ اب بحث یہ ہو رہی ہے کہ کیا 8فروری کےانتخابات کے نتیجے میں آزاد حیثیت سے جیتنے والے ارکین قومی و صوبائی اسمبلی تحریک انصاف یا کسی ایسی سیاسی جماعت جس کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی میں شامل ہو سکتے ہیں؟ اس بارے میں قانونی افراد کی رائے میں اختلاف ہے کیوں کہ کسی سیاسی جماعت جس کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا ہو اور اُسے بحیثیت سیاسی جماعت الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے تو کیا ایسی سیاسی جماعت میں آزاد حیثیت سے الیکشن جیتنے والے شامل ہو سکتے ہیں یا نہیں اس بارے میں نہ آئین میں کچھ لکھا ہے اور نہ ہی الیکشن ایکٹ میں اس بارے میں کوئی وضاحت موجود ہے۔یاد رہے کہ تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لیا گیا جس کی وجہ سے بحیثیت سیاسی جماعت وہ آئندہ کا الیکشن نہیں لڑ سکتی لیکن قانونی طور پر تحریک انصاف اب بھی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔ آئین کے مطابق آزاد حیثیت سے جیتنے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں کے پاس اُن کے الیکشن جیتنے کے نوٹیفیکیشن کے تین دن کے اندر یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ آئین کی شق نمبر 51اور 106 میں تین دن میں آزاد حیثیت سے جیتنے والے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی بات کی گئی ہے۔ ان آئینی شقوں میں جہاں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کی بات کی جاتی ہے تو وہاں آئین جن سیاسی جماعتوں میں آزاد اراکین اسمبلی کی شمولیت کی بات کرتا ہے تو وہ سیاسی جماعتیں وہ ہیں جنہوں نے عام انتخابات میں حصہ لے کر ایک یا ایک سے زیادہ نششتیں جیتی۔ آئین کے مطابق ’’۔ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے حاصل کردہ عام نشستوں کی کل تعداد میں وہ کامیاب آزاد امیدوار شامل ہوں گے جو سرکاری جریدے میں کامیاب امیدواروں کے ناموں کی اشاعت سے تین یوم کے اندر باضابطہ طور پر مزکورہ سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ اگر ان آئینی شقوں پر انحصار کیا جائے تو پھر تو تحریک انصاف کے آزد اراکین اسمبلی کسی ایسی سیاسی جماعت میں ہی شامل ہو سکتے ہیں جس نے انتخابات میں اپنے نام اور انتخابی نشان کے ساتھ ہی حصہ لیا ہو اور اُس کا کوئی نہ کوئی امیدوار الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچ گیا ہو۔ ایسی صورت میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار الیکشن جیتنے کے بعد بھی تحریک انصاف میں شامل ہو کر تحریک انصاف کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں عوام کی نمائندہ جماعت کی حیثیت نہیں دلوا سکتے ۔ لیکن اگر ان آئینی شقوں کو صرف اور صرف خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشتوں کے حوالے سے پڑھا جائے تو پھر آئین اور قانون آزاد اراکین اسمبلی کی طرف سے تحریک انصاف جسے الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا اُس کی ایسے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی اسمبلیوں میں پابندی یا آزاد اراکین کی طرف سے اُس کی نمائندگی کرنے کے معاملے پر خاموش ہیں۔ تحریک انصاف کو اگرچہ یہ درست خدشہ ہے کہ آزاد ارکین کی حیثیت سے جیتنے والے اُس کے کچھ یا کئی اراکین کو انتخابات کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں میں دباؤ یا لالچ کے ذریعے شامل کیا جا سکتا لیکن اب یہ الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے ہی فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا تحریک انصاف کو آئندہ کی اسمبلیوں میں الیکشن جیتنے والے آزاد ارکین کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بحال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ