کالم لکھنے بیٹھا تھا کہ ایک برادر عزیز کا فون آ گیا۔ عام طور سے درویش کالم لکھتے ہوئے فون نہیں اٹھاتا۔ موسیقی کے اساتذہ اپنے فن کو ہوا میں گرہ لگانے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ لکھنے والے کو تو گرہ لگانے کو کرہ ہوائی بھی میسر نہیں ۔ کاسہ سر میں رکھے مٹھی بھر مغز میں بچھی باریک شریانوں میں گندھا یاد، احساس، گزرے ہوئے واقعات اور آنے والی فصلوں کے انتظار کا ایک نادیدہ طلسم ہے۔ لکھنے والے کو احتساب کے چہار طرف پھیلے معلوم اور نامعلوم پہرے سے بچتے بچاتے ایک گریزاں خیال کے جگنو کا تعاقب کرتے ہوئے پڑھنے والے کی آنکھ کے راستے اس مقام تک پیغام رسانی کرنا ہوتی ہے جہاں شعور اور جذبے کی سرحدیں ملتی ہیں۔ لکھنے والے کے ہاتھ میں محض قلم ہے، خواہی اسے ہتھیار سمجھو، خواہی محض کلک شکستہ۔ خود اختیار کردہ بار امانت کا تقاضا ہے کہ بکتر بند غنیم کی صفوں کے اس منطقے میں پیش قدمی کرنا ہے جہاں ہر گام پر بارودی سرنگیں بچھی ہیں۔ ذرا کھٹکا ہوا اور خیال کا سراغ اوجھل ہو گیا۔ معمولی بے احتیاطی ہوئی اور چوکس حریف کی صفوں سے گراب چھوٹنے کی بجلی چمکتی ہے اور سامنے کی سچائی خوف کے غیبی گولے کی گرج سے دبک کر تلبیس کی جھاڑی میں پناہ لینے دوڑتی ہے۔ تس پہ اس کم سواد قلم کار کے ہوش و حواس ہمیشہ سے غدار تھے۔ تاب و تواںرخصت ہوئے مدت ہوئی۔ حافظے کا سہارا تھا۔ اب اس چراغ کی لو بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ مدہم ہوئی جاتی ہے۔ کوئی مشکل سی مشکل ہے… سجاد حیدر یلدرم اپنے دوستوں سے دق تھے۔ اس درویش کو فون کی گھنٹی سے خوف آتا ہے۔ ہمت کر کے یار عزیز کا فون اٹھایا۔ ادھر اور ہی قصہ درپیش تھا۔ جاننا چاہتے تھے کہ 1985 کے غیر جماعتی انتخاب سے جمہوری سفر کو کیا نقصانات ہوئے۔ ہت ترے تاریخ دان کی دم میں نمدہ۔سوچا کہ یار عزیز کو ضیا الحق کے فرزند اعجاز الحق سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا جائے جو 18 مارچ 2023 کو تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور 28 مئی 2023 کو لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ آمریت کے ورثے کو تاریخ میں اتنی ہی مہلت ملتی ہے۔ تاہم چہل بازی کا موقع نہیں تھا۔ چند نکات عرض کیے اور لمحہ حاضر کی طرف پلٹا جہاں تحریک انصاف کے انتخابی نشان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر طوفان برپا ہے۔ انتخابی نشان کے جھگڑے میں مخصوص نشستوں سے محرومی کا ماتم ہے اور ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنانے کی دہائی ہے۔ فیصلہ قانونی طور پر درست ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ سیاست کے فیصلے کمرہ عدالت میں طے نہیں پاتے۔ ہم ایسے کم مایہ کو اقتدار کے ایوانوں سے کیا تعلق۔ ہمارے لیے تو سوشل میڈیا کے پیچاک بھی بالائے فہم ہیں۔ ہمارے لیے گل و لا کے ان سوکھے تغاروں کی جانب پلٹنا ہی مناسب ہے جسے تاریخ کہتے ہیں۔ یہ 1857 کی تاریخ ہے۔ کمپنی بہادر کے لیے کلکتہ، مدراس اور بمبئی کی بندرگاہیں محفوظ تھیں۔ کمک اور رسد کی کمی نہیں تھی۔ انگریزی سپاہ کی قیادت یکسو تھی۔ بیشتر والیان ریاست درپردہ حلیف تھے۔ رسل و رسائل کے ذرائع تار اور ڈاک پر انگریز کا اجارہ تھا۔ 1853 میں ریل بھی ہندوستان پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ چند قلعوں میں محصور باغی سپاہ کی شکست ناگزیر تھی۔ ایسے میں غنیم کے لشکر بے اماں سے لڑنے والوں نے ایک انوکھا راستہ نکالا۔ متھرا میں تعینات ایک انگریز افسر تھارن ہل نے لکھا ہے کہ جنوری 1857 کا اواخر تھا۔ دفتر پہنچا تو دیکھا کہ میز پر آٹے سے بنی چار چھوٹی چھوٹی چپاتیاں دھری تھیں۔ عملے سے معلوم ہوا کہ کوئی نامعلوم شخص چوکیدار کو ایک روٹی تھما کر یہ بتا گیا تھا کہ ایسی ہی چار روٹیاں بنا کر قریبی دیہات کے چوکیداروں میں بانٹ دو اور انہیں بھی ایسا ہی کرنے کے لیے کہو۔ آنے والے دنوں میں کئی اضلاع سے یہی اطلاع ملی۔ پھر دہلی اخبار میں خبر نکلی کہ چپاتی سارے شمالی ہندوستان میں گردش کر رہی ہے۔ ان چپاتیوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا گیا، کچھ برآمد نہیں ہوا۔ گورنر جنرل چارلس کیننگ البتہ خوب جانتا تھا کہ عوام میں ہراس پھیل رہا ہے اور بے زبان چپاتیوں کا یہ پیغام کھلی بغاوت سے زیادہ خطرناک ہے۔ معلوم ہوا کہ ایسے کسی پراسرار نشان کی نقل و حرکت کا مقصد لوگوں کو کسی بدشگونی یا ایسے واقعے سے خبردار کرنا ہوتا ہے جسے کھل کر بیان نہ کیا جا سکے۔ گویا چپاتی انتباہ اور تیاری کا اشارہ تھی۔ چپاتیوں کا پشتارا لٹکائے ہوئے ایک شخص پکڑا گیا۔ پوچھ گچھ کرنے پر جواب ملا کہ ہندوستان میں پرانے وقتوں سے سردار رعایا سے کوئی کام لینا چاہے تو ان کی وفاداری جانچنے کے لیے چپاتیاں بانٹی جاتی ہیں۔ جس نے روٹی پکڑ لی، جانو وفاداری کا حلف اٹھا لیا۔ پوچھا گیا کہ کس سے وفاداری مطلوب ہے اور کس غرض سے؟ گرفتار ہرکارے نے جواب دیا، ’’ابھی تو مجھے بھی معلوم نہیں‘‘۔ 1857 میں بغاوت کا شعلہ بجھا دیا گیا۔ عدالتیں بیٹھیں، سولیاں نصب ہوئیں، زمیں زادے توپ سے باندھ کر اڑائے گئے مگر چپاتی خاموش رہی۔
چپاتی تو آج بھی بٹ رہی ہے اگرچہ انتخابی نشانات کی فہرست میں چپاتی شامل نہیں۔ بہادر شاہ ظفر لال قلعے سے نکل کر شاہ جہاں کے مقبرے میں پناہ لے سکتا تھا۔ انتخابی مشق کو مگر ایسی نقل و حرکت سے علاقہ نہیں۔ مئی 1857 میں یہ جاننا مشکل تھا کہ بہادر شاہ ظفر باغی سپاہ کے ہاتھوں مجبور محض ہے یا کمپنی بہادر سے اپنا علامتی اقتدار واپس مانگ رہا ہے۔ آج ووٹ کی عزت اور نو مئی کے واقعات پر سیاسی مفادات کا کہرا گر رہا ہے۔ کل چپاتی بٹ رہی تھی، آج سوشل میڈیا پر معرکہ جاری ہے۔ 1857کا آندولن بھی واضح ہدف سے محروم تھا اور آج کا قضیہ بھی ایک بے چہرہ کشمکش ہے جو 2008 میں بینظیر بھٹو کی شہادت سے شروع ہو کر اڈیالہ جیل تک آ پہنچی ہے۔ تب چپاتی خاموش تھی اور آج میدان سے چوگان غائب ہے۔ تاریخ کا سفر مگر جاری رہتا ہے۔ 2018ء کا منگل پانڈے اور 2023ء کا تانتیا ٹوپے بھلے لڑائی ہار جائیں، اس دھرتی کے خمیر میں گوپال کرشن گوکھلے کی نال گڑی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ