پیر کے روز بالآخر سپریم کورٹ سے اس فیصلے کا ا علان ہوگیا جو حیران کن نہیں بلکہ متوقع تھا۔ گزرے برس کے 21اکتوبر کے دن نواز شریف کی طویل وقفے کے بعد لندن سے اسلام آباد اور بعدازاں لاہور آمد نے عندیہ دے دیا تھا کہ انہیں وزارت عظمی کے منصب پر چوتھی بار بٹھانے کی کاوشوں کا آغاز ہوچکا ہے۔اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ تاحیات نااہلی تھی جو ثاقب نثار کی سپریم کورٹ نے پانامہ دستاویزات کے اپریل 2016 میں ایک دھماکہ کی صورت نمودار ہونے کے بعد ازخود نوٹس کے ذریعے پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم پر مسلط کی تھی۔
مزید لکھنے سے قبل یاد دلانا چاہوں گا کہ نواز شریف کے انداز سیاست کی بابت ہزاروں تحفظات کے باوجود میں نے پانامہ دستاویزات کو نواز شریف کی نااہلی کے لئے استعمال کرنے کی مستقل مزاجی سے مخالفت کی تھی۔اس کالم میں “Tax Evasion”یعنی ٹیکس چوری اور”Tax Avoidance”(ٹیکس سے بچنا) کے درمیان فرق کو بارہا سمجھانے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ آف شور کمپنیوں کے قیام کی تاریخ اور اسباب بھی بیان کرتا رہا۔مقصد نواز شریف کی بے جا حمایت نہیں بلکہ یہ عرض گزارنا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے سرمایہ دار ٹیکس سے بچنے کے لئے جو ہتھکنڈے اپناتے ہیں آف شور کمپنیاں ان میں سب سے جائز تصور ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی یاد دلاتا رہا کہ پانامہ دستاویز میں نواز شریف کا براہ راست کسی بھی مقام پر ذکر نہیں ہے۔ان کے خاندان کے زیر استعمال لندن کے چند فلیٹوں کا ذکر یقینا موجود ہے۔
مجھ جیسے نواز شریف کے عمومی ناقد کا پانامہ پیپرز کی بنیاد پر ایک منتخب وزیر اعظم کے خلاف ہوئی کارروائی کی بابت پریشان ہوجانے کا کلیدی سبب یہ بھی تھا کہ پانامہ دستاویزات میں تین سو کے قریب پاکستانیوں کے نام لئے گئے تھے۔ان میں سے تاہم صرف ایک یعنی شریف خاندان ہی کو ثاقب نثار کی سپریم کورٹ نے رسیداں کڈھو والے سوالات کے ساتھ دیوار سے لگایا۔ ازخود نوٹس کے ذریعے محض ایک کاروباری خاندان کا احتساب اصولی اعتبار سے مجھے متعصبانہ محسوس ہوا۔ سیاسی اعتبار سے یہ عمل مجھ ایسے لوگوں کو اس لئے بھی معیوب نظر آیا کیونکہ بطور رپورٹر ہم جانتے تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو مودی کا یار پکارنے والے درحقیقت کن وجوہات کی بنیاد پر موصوف سے جند چھڑانا چاہ رہے تھے۔ بدقسمتی سے ایک منتخب وزیر اعظم کو فا رغ کرنے کے لئے سپریم کورٹ استعمال ہوئی۔ اس کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے فدویانہ رویے سے 1950 کے جسٹس منیر کی یاد دلادی جنہوں نے نظریہ ضرورت متعارف کرواتے ہوئے پاکستان میں غیر جمہوری قوتوں کو طاقت ور ترین بنانے کے جواز فراہم کردئیے تھے۔ پانامہ پیپرز بھی بالآخر ہمارے ہاں آدھا تیتر-آدھا بٹیر دکھتے جمہوری نظام کا سبب ہوئے جسے ہائبرڈ(Hybrid)پکارتے ہوئے ہم سادہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
بہرحال نواز شریف کے لئے اب سپریم کورٹ کے حوالے سے تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا والا معاملہ ہوچکا ہے۔ سوال اگرچہ اب بھی یہ اٹھانا لازمی ہے کہ پیر کے روز آئے فیصلے کے بعد کیا سپریم کورٹ ازخود اختیارات کے ذریعے کسی اور وزیر اعظم کے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہے یا نہیں۔جان کی امان پاتے ہوئے قانون کی نزاکتوں اور باریکیوں سے لاعلم یہ صحافی چیختے نہیں میں جواب دینے کو مجبور ہے۔
آج بھی 1993 کا وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے نواز شریف کی اس حکومت کو بحال کرتے ہوئے تاریخ بنائی تھی جسے ان دنوں کے صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کے تحت میسر اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس برس کے اپریل میں برطرف کردیا تھا۔ وہ فیصلہ آنے کے بعد مبصرین سینہ پھلاکر دعوی کرتے رہے کہ آئین میں آٹھویں ترمیم کے ہوتے ہوئے بھی اب کوئی صدر کسی منتخب وزیر اعظم کو قومی اسمبلی سمیت فارغ نہیں کر پائے گا۔اس روز آئے فیصلے کو پارلیمان کی دیواروں پر کنندہ بھی کروادیا گیا۔
مذکورہ فیصلے کے باوجود مگر 1996 میں ایک اور صدر-سردار فاروق لغاری- نے ایک اور وزیراعظم -محترمہ بے نظیر بھٹو- کو آٹھویں ترمیم کے تحت میسر اختیارات کی بدولت فارغ کردیا تھا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نسیم حسن شاہ کے تین سال قبل فیصلے کو اب کی بارردی کی ٹوکری میں پھینکتی نظر آئی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں ایک ایسے دن کا تصور ذہن میں لانے سے باز نہیں رہ سکتا جو چند برس کے بعد سپریم کورٹ کے کسی چیف جسٹس کو ممکنہ طورپر ایک بار پھر ازخود ا ختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی وزیر اعظم کو آئین کی 62/63والی شقوں کی روشنی میں تاحیات نہ سہی کم ازکم پانچ سال تک انتخابی عمل میں حصہ لینے کے ناقابل ٹھہرادے۔ جو میں سوچ رہا ہوں اس کے امکانات ختم کرنے کے لئے لازمی ہے کہ 8فروری 2024 کے انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئی اسمبلی اپنے قیام کے پہلے دن سے 62/63والی شقوں کو نظرثانی کی چھلنی سے گزا رے۔ ان کے بارے میں ایوان میں ہوئی بحث کو براہ راست ٹی وی سکرینوں پر نشر کیا جائے اور بالآخر ایسا بندوبست تشکیل پائے جو افتخار چودھری، آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار جیسے مسیحا بننے کے حریص پاسداروں سے جمہوری نظام اور عوام کی منتخب کردہ قیادتوں کو محفوظ بناسکے۔
سیاستدانوں کو بالآخر سمجھ ہی لینا چاہیے کہ ایک دوسرے کو مسلسل چور اور لٹیرا پکارتے ہوئے وہ درحقیقت یہ اعتراف بھی کررہے ہوتے ہیں کہ جمہوری اور انتخابی نظام بدعنوان عناصر سے نجات پانے کی سکت سے قطعا محروم ہے۔ اسی باعث کسی تیسری قوت اور عموما عدلیہ کو یہ فریضہ سرانجام دینا پڑتا ہے۔اگر وہ بھی ناکام رہے تو وہاں سے دیدہ ور کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ مختصرا یہ فریاد کرنا ہے کہ اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوجانے کے بعد سیاستدانوں کو اپنی محاورے والی داڑھی کسی اور کے ہاتھوں میں دینے کی عادت بدسے نجات پانا ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت