ریاست کا ادارتی بحران ….نعیم قاسم


کوئی باشعور پاکستانی اس بدیہی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا ہے کہ ریاست کا اداراتی ڈھانچہ کا مکمل بریک ڈاؤن ہو چکا ہے ہر ادارہ اعلی عدلیہ کے فیصلوں کو درخور اعتنا سمجھتے ہوئے اپنے اپنے ایجنڈوں پر کام کر رہا ہے نگران حکومتیں مکمل طور پر پر طاقتوروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قانون، آئین اور انسانی حقوق کو جوتی کی نوک پر رکھے ہوئے ہیں اگر کوئی کام کررہا ہے تو وہ میڈیا آپٹکس ہیں قانون اور آئین کی پہلی خلاف ورزی الیکشن کمیشن نے کی کہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیاں ٹوٹنے پر سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن نہ کرائے. ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہوں ____نہ وزیر اعظم اور نہ ہی چیف الیکشن کمشنر پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی کی تو اس کے بعد تو پولیس، سول ایڈمنسٹریشن نے اعلی عدلیہ کے فیصلوں کو جوتی کی نوک پر ہی لکھنا تھا واقعی افتخار محمد چوہدری پولیس اور سول ایڈمنسٹریشن کے اعلی افسران کی صحیح توہین کرتے تھے اور وہ پولیس جو عثمان ڈار کی والدہ اور شاہ محمود قریشی کی تزلیل کرنے کو اپنا سرکاری فرض خیال کر رہی ہے وہ اس وقت ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی آج ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نگران حکومت کے زیر اہتمام اعلی عدلیہ کے وقار کے منافی سوچی سمجھی کوشش کی جا رہی ہے نواز شریف کی راتوں رات بریت ہو جائے تو اسلام آباد ہائی کورٹ زندہ باداور اگر توشہ خانہ کیس میں تحائف کی مالیت ایف بی آر کے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے پر عمران خان نااہل ہو جائے جس کا الیکشن کمیشن کو اختیار بھی نہیں تو کیا انصاف ہے لیکن پشاور ہائی کورٹ تحریک انصاف کے بلے کا نشان بحال کر دے سپریم کورٹ سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت لے لے تو مسلم لیگ ن کے لیڈران طوطو ہار مچانا شروع کر دیتے ہیں اور اخبارات میں مریم نواز اور شہباز شریف کے الزامات سیدھے سادھے تو ہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں پنجابی سیاست دانوں کی چھو ٹے صوبوں کی عدلیہ عوام اور ان کے ساتھ سماجی امتیاز نے ہی نفرت کی خلیج کو وسیع کیا ہے اسلام آباد میں بلوچ خواتین کے ساتھ انتظامیہ کے ناروا سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پنجاب کے لیڈرز نے جو چپ سادھ رکھی ہے اسکی وجہ سے بلوچستان اور فاٹا میں پنجابی محنت کشوں کو قتل کیا جاتا ہے قومیت پرستی کے جذبات کی قیمت غریب پنجابی، بلوچی اور پٹھان کو دینی پڑتی ہے حالانکہ سٹیس کو کی علمبردار قوتوں کی باہمی آویزش کا خمیازہ عام پاکستانی بھگت رہا ہے اس ملک میں ہر سیاسی جماعت اور طاقتور ور شخص کے اپنے اپنے جرنیل ججز اور میڈیا پرسنز ہیں جو اپنے حواری سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور پولیس افسران کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں اگر کسی کا اللہ کے سوا کوئی سرپرست نہیں ہے تو وہ ملک کے 24 کڑور مجبور اور مہقور عوام ہیں جن سے زبردستی مینڈیٹ لیا جاتا ہے اور پھر انہی پر مہنگائی، بیروزگاری اور دہشت گردی کا عفریت مسلط کر دیا جاتا ہے عام آدمی کو پولیس سے لے کر عدالتوں میں اپنے جا ئز حقوق کی خاطر مال دولت سے محرومی کے ساتھ ساتھ ظلم و نا انصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر چیں بچیں کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ سپریم کورٹ میں تا حیات نااہلی کے متعلق کیس لگا ہوا ہے تو کیسے نواز شریف کے کاغذات نامزدگی درست قرار دے دیے گئے ہیں اگر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کو مسئلہ ہے تو سپریم کورٹ سے رجوع کرے ن لیگ چاہتی ہے کہ اس کے مقابلے پر تحریک انصاف انتخابات میں حصہ ہی نہ لے تو پھر کس نے نواز شریف کی تاج پوشی کو تسلیم کرنا ہے الیکشن کروانے پر سپریم کورٹ نے مجبور کر دیا ہے تو مقابلہ کریں
کوہکن تو قید میں سرگشتہ خمار رسوم و قیود ہے مگر وہ فرہاد سے زیادہ سخت جان ہے وہ اپنے آدرشوں کو حقیقت کا روپ دینے میں خود تو جان نہیں دے گا جیسا کہ پٹواریوں کا خیال تھا کہ وہ تو دو دن جیل میں گزار نہیں پائے گا بھٹو کی طرح جان لینی ہے تو لے لیں مگر سائفر کیس میں جسٹس منصور اور اطہر من اللہ نے اس مرد حر کی جان کی سلامتی کو درپیش خطرات ختم کر دئیے ہیں جسکی بھی بڑی تکلیف ہو رہی ہے عمران بھٹو کے نقش قدم پر تو چلے گا وہ کوئی دکانداروں کا لیڑر نہیں کہ جان بچانے کے لیے سمجھوتہ کر لے
جس ڈھب سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
قوم کے ایک بہت بڑے حصے میں یہ احساس بہت شدت سے جنم لے چکا ہے کہ پاکستان ہر حوالے سے بہت پیچھے رہ گیا ہے جبک یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا ہے بنگلہ دیش، سری لنکا، ہندوستان حتی کہ افغانستان میں مہنگائی کی شرح پاکستان سے کم ہے یہ احساس زیاں میرے نزدیک اس بات کی علامت ہے ک پاکستان کے عوام کی اکثریت اپنے حکمرانوں اور ریاست کے کارہائے پرداز کے طرزعمل اور جبروستم کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اب بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے بعد پنجاب کے پڑھے لکھے نوجوان بھی ہر مسئلے کا حل انتہا پسندی میں ڈھونڈ رہے ہیں جب ریاست کبھی طالبان، کلبوشن اور سرفراز اور شنبے کو تو معاف کر دے گی لیکن غلطی سے ردعمل میں نو مئ ہو یا بلوچ طالب علم ہوں ان کو معاف کرنے پر کوئی تیار نہیں یہی بہادر پولیس تحریک لبیک کے کارکنوں کے ہاتھوں مارے جانے پر بھی ان کے خلاف کچھ نہیں کر پاتی ہے تو ایسے حالات میں نوجوان شدید مایوسی اور قنوطیت بلکہ سنکیت کا شکار ہو کر یا تو ملک چھوڑ نا چاہتے ہیں یا پھر جھتوں اور گروہوں میں شامل ہو کر ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا جرائم پیشہ گروہوں میں شامل ہو کر عوام کو لوٹتے اور قتل و غارت کرتے ہیں یہ لوگ محض سزاؤں اور ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ یا غائب ہونے سے راہ راست پر نہیں آئیں گے ایک شخص کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو اس کے خاندان کے لوگ انتقام کے لیے تشدد کی راہ اپنا لیتے ہیں ایسے میں اگر کوئی بھی جماعت سیاسی عمل سے ایسے نوجوانوں کو مرکزی دھارے میں لاتی ہے تو یہ ریاست اور وطن کی خدمت ہو گی لہذا ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن 8 فروری کے انتخابات کو قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اس طرح انجام دے کہ تمام فریقین اس کی غیر جانبداری کو تسلیم کر لیں اگر پی ٹی آئی یا کسی بھی اور سیاسی جماعت اور شخصیت کو الیکشن کے عمل میں سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے روکا گیا تو اس ملک میں ادارتی بریک ڈاؤن کے باعٹ انارکی تو پھیلی ہوئی ہے اس کے بعد نفرتیں، تعصبات اور گروہی مفادات اس ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جائیں گی کیا لاکھوں جانوں اور عصمتوں کی قربانیاں ہمارے آباؤ اجداد نے اس لیے دیں تھیں کہ ہم ہندوؤں کی غلامی سے نجات حاصل کر کے اولیگارکی یابونا پارٹ ازم (امراء اور طاقت ورو ں کی غلامی جن کا سربراہ مافیا کے گینگ کے سربراہ کے طور پر ملک چلاتا ہے) کے غلام بن جائیں آزادی کی خواہش تو ڈراؤنا خواب بن گیا ہے جسکی سحر کی آرزو لیے فیض صاحب تو رخصت ہوئے ہم بھی گھڑی بھر کے مہمان ہیں جن کی زندگیوں میں تو کچھ نہیں بدلا
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں