اسٹیبلشمنٹ نے پراجیکٹ نیا پاکستان کے لیے پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے لیے اسی مائنڈ سیٹ کے ججوں کی شکل میں عمرانی عدلیہ کو ڈنڈے کے زور پر ملک پر مسلط کیا جو آج تک ملک میں بحران پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔اس گناہ کا کفارہ زبانی کلامی ادا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ طاقت کے زور پر بنایا جانے والا سسٹم طاقت کے ذریعے ہی مسمار ہو گا۔ سائفر کیس میں سپریم کورٹ نے عمران خان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے جو ریمارکس دئیے وہ اس سنگین مقدمے کا تیا پانچہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ عدالتیں نو مئی کے واقعات کو دہشت گردی تو کیا معمولی جرم ماننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے خلاف بغیر نکاح کے بیٹی پیدا کرنے، فارن فنڈنگ، توشہ خانہ، عدت میں نکاح، 190ملین پونڈ سمیت کوئی بھی کیس آئے مخصوص جج عمران خان کے حق میں خود ہی دلائل دینا شروع کردیتے ہیں۔ یہی رویہ فوجی تنصیبات پر منظم حملے اور آرمی چیف کو ہٹانے کے لیے پر تشدد مہم چلانے والے عناصر کو ہلہ شیری دینے کی بنیاد بنا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدالتیں پی ٹی آئی اور اس کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات کو قانونی انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے الیکشن 2024 کو شفاف بنانے کے لیے کام کرتیں لیکن اس کے برعکس اب تک وہی سہولت کاری جاری ہے جو پراجیکٹ پی ٹی آئی کو لانچ کرتے وقت شروع کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کی سربراہی آئین پسند چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے پاس آنے کے باوجود اعلی اور ماتحت عدالتوں میں آج بھی عجیب و غریب واقعات پیش آ رہے ہیں۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کھلے عام ہو رہا ہے۔ یوں تو پوری داستان رقم ہو چکی لیکن حقائق کو تازہ رکھنے کے لیے چند واقعات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ 25 مئی 2022 کو عمران خان نے اسلام آباد پر یلغار کرنے کا اعلان کیا۔ پنجاب اور کے پی کے سے قافلوں کی شکل میں وفاقی دارالحکومت پہنچ کر ریاستی نظام کو دنگے فساد کے ذریعے مفلوج بنانے کی کھلی دھمکی دی گئی۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پنجاب میں حکومت ن لیگ کے پاس آ چکی تھی جس نے سرکاری مشینری کے ذریعے پورا احتجاج اتنی بری طرح ناکام بنا دیا کہ پرندہ بھی پر نہ مار سکا کے پی کے میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہونے کے باوجود زیادہ بندے اکٹھے نہ کیے جا سکے۔ ادھر اٹک پل پر وفاقی حکومت نے کڑے حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ حرکت میں آئی۔ پی ٹی آئی کو نہ صرف اسلام آباد آنے کی اجازت دی گئی بلکہ وفاقی حکومت کو سہولتیں فراہم کا بھی حکم دیا گیا۔ دوران سماعت بینچ کے ایک رکن جسٹس مظاہر نقوی، آئی جی اسلام آباد کو جھاڑ پلاتے رہے۔ عدالتی شہ پر پی ٹی آئی اسلام آباد آئی، گھیراؤ جلاؤ کیا۔ حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو چیف جسٹس بندیال نے کہا ہو سکتا ہے کہ عمران خان تک ہمارا حکم پہنچا ہی نہ ہو۔ آتشزدگی کے واقعات کا یہ کہہ کر دفاع کیا گیا کہ آنسو گیس کا اثر کم کرنے کے لیے پودے وغیرہ
نہ جلاتے اور کیا کرتے؟ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی عدالت نے حکومت کے ہاتھ پاوں باندھ کر بلوائیوں کو موقع فراہم کیا۔ پھر اسی سپریم کورٹ نے پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کے لیے آئین ری رائٹ کر دیا۔ جنرل باجوہ کے دور تک کہا جا سکتا ہے وہ مدت ملازمت میں توسیع کے لیے وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے تھے۔ بظاہر ایک دوسرے کی مخالفت، اندرون خانہ عمران خان اور عمران دار ججوں سے الائنس بنا رکھا تھا۔ (یہ جنرل باجوہ ہی تھے جن کے دباؤ پر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے بندیال کو جونیئر جج دئیے اور آزاد عدلیہ کا مستقبل مزید مخدوش کر دیا) لیکن جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے اور پھر نو مئی کے بعد کیا ہوا؟ بندیال نے گڈ ٹو سی یو کہہ کر عمران خان کو فوجی قیادت کے مقابلے میں فاتح قرار دیا۔ فوری رہائی ممکن بنائی۔ اتنی زحمت بھی نہ کی کہ اپنے محبوب لیڈر سے یہی پوچھ لیتے کہ جناب عالی آپ تو وہیل چیئر پر آئے تھے، گرفتاری کے بعد چند لمحوں میں ایسا کونسا جادو ہو گیا کہ اب بھاگتے پھر رہے ہیں؟ ادھر( عدالت سے دھوکہ دہی ناقابل معافی ہی نہیں قابل تعزیر جرم ہے) اسی دوران لاہور ہائی کورٹ میں یہ حال تھا کہ ایک جج نے سرکاری وکلا سے کہا نو مئی کیس میں پکڑے جانے والوں کو چھوڑ دیں۔ یہ اپنے گھروںکو جائیں کھانا کھائیں آرام کریں، میں ان کے وکلا سے کہہ دوں گا انہیں سمجھا دیں آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے جج نے ایم پی او کے تحت پکڑے گئے ملزموں کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا اور فیصلہ جاری کیا کہ حکومت ان سب کو کچھ رقم (زر تلافی) بھی فراہم کرے۔ رات گئے عدالتیں لگا کر ضمانتوں کی لوٹ سیل لگا دی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی پی ٹی آئی ریلیف آپریشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جی ایچ کیو پر اعلان کر کے حملہ کرنے والے شہریار آفریدی کی رہائی یقینی بنائی۔ ریاستی اداروں پر حملوں کی مسلسل ترغیب دینے والی شاندانہ گلزار کا تحفظ یقینی بنایا۔ آڈیو لیکس کیس لگا کر پی ٹی آئی کے لیے حفاظتی دیوار کھڑی کی۔ پشاور ہائی کورٹ تو اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اے این پی اور جے یو آئی کے ارکان نے احاطہ عدالت میں چیف جسٹس اور ججوں کے خلاف احتجاج اور نعرے بازی بھی کی۔ پی ٹی آئی کا عدالتی وائرس پوری ریاست کے درپے ہے اور ابھی تک ٹھوس علاج نہیں کیا گیا یا دریافت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ سائفر کیس میں سپریم کورٹ سے آنے والے ریمارکس نے ایک انتہائی سنگین کیس کو مضحکہ خیز بنا کر رکھ دیا ہے۔ حقائق کھلی کتاب کی طرح ہیں کہ عمران خان نے آڈیو لیک میں خود کہا کہ سائفر سے صرف کھیلنا ہے۔ ساتھ بیٹھے اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری نے کہا کہ میں اسے ڈی کوڈ کرتے ہوئے دھمکی کا رنگ دے دوں گا۔ یعنی تحریف بھی کی گئی۔ سائفر کو تماشا بنا کر پاکستان کی جگ ہنسائی کرائی گئی۔ امریکہ نے اعلانیہ تردید کی اور سخت برا منایا۔ پاکستان کے مخالف تمام ملکوں کو فائدہ پہنچا اور پاک امریکہ تعلقات داؤ پر لگ گئے۔ اسی سائفر کو بنیاد بنا کر فوجی قیادت کو میر صادق، میر جعفر کہا گیا۔ عمران خان نے خود اعتراف کیا کہ سائفر کی کاپی ان سے کہیں کھو گئی ہے۔ یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی سے کہیں آگے کا کیس ہے۔ آج جج کہہ رہے ہیں کہ سائفر تو وزارت خارجہ سے نکلا ہی نہیں۔کسی دوسرے ملک کو کیا فائدہ ہوا وغیرہ وغیرہ۔ جسٹس اطہر من اللہ نے تو عمران خان کو معصوم کہہ کرالٹا پوری ریاست کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ اسی طرح نو مئی کے واقعات آرمی چیف کے خلاف بغاوت کرانے کی باقاعدہ سازش ہونے کے تمام شواہد موجود ہیں۔ عمران خان، پی ٹی آئی کا حامی میڈیا اور سوشل میڈیا گینگ، ریٹائرڈ اور کچھ حاضر سروس افسران، بعض جج اور ان کے اہل خانہ حتی کہ زلمے خیل زاد سمیت فارن ہینڈلرز تک سب ملوث ہیں اب نو مئی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں تو اور کہاں چلیں گے۔ سول عدالتیں پی ٹی آئی کے خلاف نو مئی سمیت دیگر مقدمات میرٹ پر چلانا شروع کر دیتیں تو ملک میں کوئی بحران ہی پیدا نہ ہوتا۔ انتخابات میں لیول پلیئنگ شفافیت کا لازمی تقاضا ہے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ جن کے خلاف مقدمات ہیں اور وہ الیکشن لڑنے کے اہل نہیں انہیں جلد از جلد منطقی قانونی انجام تک پہنچایا جائے۔ عدلیہ کا ایک حصہ جو کچھ کر رہا ہے اسے مان لیا گیا تو آئندہ کے لیے طے ہو جائے گا کہ جب بھی عام انتخابات کا موقع آئے جیلیں توڑ کر تمام قیدیوں کو کھلا چھوڑ کر حصہ لینے کی اجازت ہو گی۔ ریاست کو الیکشن لڑنے کے خواہش مند مفررورں کے سامنے سرنڈر کرکے ان کے لیے ریڈ کارپٹ بچھانا ہوں گے۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات