ایک امریکی آن لائن اخبار دی انٹرسیپٹ کے مطابق اکتوبر میں برطانیہ میں اوتار سنگھ کھنڈا کے خاندان نے الزام لگایا گیا کہ ان کو انٹیلی جنس ایجنٹوں نے زہر دیا تھا۔ اس سے قبل 2022 میں،پودامن سنگھ ملک نامی 75 سالہ کینیڈین شخص، جسے 1985 میں ایئر انڈیا کی پرواز پر ہونے والے مہلک بم دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا، کو کینیڈا میں اس کے دفتر کے باہر ہلاک کر دیا گیا تھا۔اس اخبار کے مطابق پاکستان میں دو سکھ کارکنوں کو لاہور اور اسلام آباد کے شہروں میں قتل کا نشانہ بنا یا گیا۔ اسلام آباد میں ایک مبینہ ہدف نامعلوم ہے، جب کہ دوسرا لکھبیر سنگھ روڈے ہے، جو 1990 کی دہائی سے پاکستان میں مقیم ایک سرکردہ سکھ علیحدگی پسند رہنما تھا اور جس پر بھارتی حکومت طویل عرصے سے دہشت گردی کا الزام لگاتی رہی ہے۔روڈے کا بیٹا بھگت سنگھ، ایک کینیڈین شہری ہے، اپنے والد کی طرح، سکھ علیحدگی کی تحریک میں نمایاں ہے۔ اس نے دی انٹرسیپٹ کو بتایا کہ ان والد ایک طویل عرصے سے بھارتی حکومت کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سال نجار کے قتل کے بعد انہیں کینیڈا کی انٹیلی جنس نے اپنی جان کو لاحق خطرات کے بارے میں بھی خبردار کیا تھا۔ کنیڈا کی طرح امریکہ نے بھی بھارتی خفیہ ادارے را کے دو سینئر افسران کو ملک چھوڑنے کیلئے کہا۔ چونکہ امریکہ نے اس کی پبلسٹی نہیں کی اور ان افسران کے نام بھی ظاہر نہیں کئے، اس لئے بھارت یہ کڑوی گولی نگل گیا ۔ جن افسران کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا، وہ سان فرانسسکو کے مشن میں کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، بھارت کو واشنگٹن میں را کے اسٹیشن چیف کی پوسٹ پر تعیناتی سے روک دیا گیا، جو اس سال کے شروع سے خالی ہے۔ نئے افسر کو 30 جون سے قبل چارج لینا تھا۔ سان فرانسسکو ، واشنگٹن اور اوٹاوا میں را کے افسران کی بے دخلی یقینا بھارت کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے۔ مگر خیر ہو بھارتی میڈیا کا، جو اب اپنے حکمرانوں سے سوال پوچھنے کے بجائے الٹا اپوزیشن کو ہی ہر معاملے میں کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔ اس طرح ایک طرح سے شمالی امریکی براعظم کوبھارت کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے صاف کر دیا گیا ہے۔ ان افسران کی بے دخلی کا مقصد اس پیغام کو اجاگر کرنا ہے کہ اگر بھارتی ایجنسیاں مغرب میں جارحانہ کاروائیاں کرتی ہیں، تو ان کو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ کنیڈا کے مقابلے امریکی الزامات کے جواب میں بھارت کا رویہ یکسر مختلف تھا۔ امریکہ میں گرپت ونت سنگھ کے خلاف قتل کی سازش کا بھانڈا پہلے فنانشل ٹائمز نے پھوڑا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ نے الزامات کو یکسر مسترد نہیں کیا۔ جو صحافی بھارتی وزارت خارجہ کو کور کرتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ کہ ایسی رپورٹ پر پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ قیاس آرائی پر مبنی کسی میڈیا رپورٹ پر رائے زنی نہیں کرتی ہے۔ بعد میں جب ایسی رپورٹیں پارلیمنٹ یا عدالت جیسے دیگر فورمز کے ذریعے درست ثابت ہو جائیں تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ فنانشل ٹائمز نے وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے جب دعوی کیا کہ امریکہ نے پنن کے قتل کی سازش کو ‘اعلی ترین سطح’ پر بھارت کے ساتھ اٹھایا۔تو تردید کرنے کے بجائے بھارتی وزار ت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ بھارت اس طرح کے الزامات کو سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے، کیونکہ یہ اس کی قومی سلامتی کے مفادات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ مریکہ نے کچھ معلومات شیئر کیں ہیں۔ اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ ترجمان نے کہا کہ لگتا ہے کہ منظم مجرموں یعنی مافیا، اسلحہ برداروں، دہشت گردوں اور دیگر کے درمیان گٹھ جوڑ ہے، جس کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ سفارت کاری میں الفاظ چن چن کر استعمال کئے جاتے ہیں، اس لئے اس جملہ میں لفظ دیگر کی شمولیت ایک واضح شارہ ہے۔یعنی کچھ اور لوگ یا ا یجنسیاں ملوث ہیں۔ باغچی نے مزید کہا کہ نومبر میں ہی حکومت نے معاملے کے تمام متعلقہ پہلوں کو دیکھنے کے لیے ایک اعلی سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی اور یہ کہ حکومت اس کے نتائج کی بنیاد پر کارروائی کرے گی۔ چار سال قبل جرمنی نے بھی بھارتی خفیہ ایجنسیوں پر سوال اٹھا دیے تھے۔ 2020 میں، جرمنی نے ایک افسر کوملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا، جو انڈین ریونیو سروس (IRS) سے ڈیپوٹیشن پرخفیہ ایجنسی میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ جوابی کارروائی میں دہلی میں جرمن انٹیلی جنس افسراوی کیہم کو ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ جرمنی نے ایک سکھ پناہ گزین بلویر سنگھ کو خالصتان کے حامیوں کی مبینہ جاسوسی کرنے کے الزام میں ایک سال قید اور 2,400 یورو جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اس سے قبل فرینکفرٹ کی ایک عدالت نے ایک بھارتی صحافی کو کشمیری اور سکھ علیحدگی پسندوں کی جاسوسی کرنے پر 18 ماہ کی سزا سنائی تھی۔اس سے قبل 2015 میں جرمنی کے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کام کرنے والے ایک جرمن امیگریشن افسر پر خالصتان کے مشتبہ کارکنوں کی معلومات را کو فروخت کرنے کے لیے سرکاری ڈیٹا بیس تک رسائی کے لیے مقدمہ چلایا گیا تھا۔ابھی حال ہی میں بھارت کے آٹھ سابق بحریہ کے افسران کو قطر کی ایک عدالت نے جاسوسی سے متعلق الزامات پر سزائے موت سنائی ہے، جب کہ متعدد دیگر بھارتی شہری مشرق وسطی میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہیں۔ امریکہ اور بھارت اس وقت تو دوستی کی حدیں طے کررہے ہیں اور مختلف امور خاص طور پر اینٹلیجنس میں بھی تعاون کر تے ہیں۔ مگر سرد جنگ کے دوران امریکی سی آئے اے اکثر را کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ 1987 میں را کے ایک افسرکے وی اننی کرشنن کو گرفتار کیا گیا تھا اور قومی سلامتی ایکٹ (NSA) کے تحت تہاڑ جیل میں رکھا گیا ۔ وہ ایجنسی کے طرف سے سری لنکا میں علیحیدگی پسند لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (LTTE) کا رابط کار تھا،مگر پتہ چلا وہ معلومات کولمبو میں تعینات سی آئی اے افسر کے ساتھ شیئر کرتا تھا اور اکثر اس کے ساتھ شراب پیتا تھا۔وہ ایک ایئر ہوسٹس کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا اور بعد میں معلوم ہوا کہ سی آئی اے نے ان کی کچھ تصویریں لی تھیں، جن سے وہ بلیک میل ہوتا تھا۔ اگرچہ وہ 18 ماہ تک جیل میں رہا، لیکن اسپر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ سماعت کے دوران بھارت کی تامل ٹائگرز کو مدد و تربیت دینے کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ جاتا۔ اسلام آباد، بنکاک اور کینیڈا میں تعینات ایک سابق افسر شمشیر سنگھ مہاراج کمار نے اپنی سروس کے اختتام پر اپنے بیٹے کے ساتھ کینیڈا میں رہنے کو ترجیح دی۔اسی طرح ایک اور سابق افسر سکندر لال ملک نے اپنی سروس کے اختتام پر امریکہ میں رہنے کا انتخاب کیا ۔سابق سربراہ گریش سکسینا کے سیکرٹری ایم ایس سہگل لندن میں رہتے ہیں۔اشوک ساٹھے، جو کبھی ایران میں اسٹیشن کے انچارج تھے، کہا جاتا ہے کہ وہ کیلیفورنیا میں رہتے ہیں۔ ، این وائی بھاسکر اور بی آر بچار دونوں نے امریکہ میں رہائش حاصل کی ہے ۔اسی طرح میجر آر ایس سونی اپنے ادارہ کو بغیر کوئی اطلاع کینیڈا چلے گئے۔ (ختم شد)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز