صنعا(صباح نیوز)یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک اہم آبی گزرگاہ بحیرہ احمر میںمال بردار بحری جہازوں پر حملوں نے عالمی تجارت خطرے میں ڈال دی ہے۔ کئی شپنگ کمپنیوں نے حملوں کے خوف سے بحیرہ احمر کی گزرگاہ استعمال کرنا ترک کر دی۔ ہر سال تقریبا 20 ہزار بحری جہاز بحیرہ احمرسے گزرتے ہیں جو یومیہ لاکھوں بیرل تیل اور ایشیا سے درآمد کیے جانے والا سامان لے کر جاتے ہیں۔بحر ہند سے آنے والے تیل کے ٹینکرز اور مال بردار بحری جہاز بحیرہ احمر اور پھر نہر سویز تک پہنچنے کے لیے اسی آبی گزرگاہ سے گزرتے ہیں جہاں سے وہ یورپ اور امریکہ جانے کے لیے بحیرہ روم میں داخل ہوتے ہیں۔ بحری جہازوں سے ہونے والی عالمی تجارت کا 12 فیصد بحیرہ احمر سے گزرتا ہے۔
بی بی سی کے مطابق حوثی باغی یمن کے زیادہ تر حصے پر قابض ہیں اور اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کے بعد حوثی باغیوں نے اسرائیل سے آنے اور وہاں جانے والے تجارتی جہازوں پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے ادھر بحیرہ احمر میں مال بردار جہازوں کو نشانہ بنانے والے یمن کے حوثی باغیوں کے حملوں میں اضافے کے بعد بڑی شپنگ کمپنیوں نے آبنائے باب المندب کے آمد و رفت کے اس اہم راستے سے سفر روک دیا ہے۔امریکہ نے اس اہم ترین بحری گزرگاہ کی حفاظت کے لیے ایک کثیر القومی بحری ٹاسک فورس تشکیل دینے کے کا اعلان کیا ہے لیکن اگر یہ تنگ سمندری پٹی تجارت کے لیے بند ہو جاتی ہے تو اس کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے،
اس کا جائزہ لیتے ہیں۔باب المندب، جس کا عربی میں ترجمہ آنسوں کا دروازہ ہے، بحیرہ احمر کے جنوبی سرے پر ایک تنگ آبی گزرگاہ ہے جوخلیج عدن سے ہوتے ہوئے بحر ہند میں جا ملتی ہے۔یہ سمندری پٹی جزیرہ نما عرب کے یمن کو شمال مشرقی افریقی ممالک جبوتی اور اریٹیریا سے الگ کرتی ہے۔تقریبا 100 کلومیٹر طویل اور 30 کلومیٹر چوڑی یہ آبی گزرگاہ یمن کے ساحلی شہر راس مین ہیلی اور جبوتی میں راس سیان تک پھیلی ہوئی ہے جس کا شمالی سرا بحیرہ احمر اور جنوبی سرا خلیج عدن میں کھلتا ہے۔اس سمندری موڑ پر جزیرہ بریم آبنائے کو دو شپنگ لینز میں تقسیم کرتا ہے۔ بحیرہ احمر یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک اہم آبی گزرگاہ کے طور پر کام کرنے کے ساتھ یہ آبنائے دنیا کی مصروف ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے۔
بحر ہند سے آنے والے تیل کے ٹینکرز اور مال بردار بحری جہاز بحیرہ احمر اور پھر نہر سویز تک پہنچنے کے لیے اسی آبی گزرگاہ سے گزرتے ہیں جہاں سے وہ یورپ اور امریکہ جانے کے لیے بحیرہ روم میں داخل ہوتے ہیں۔ اسرائیل سے منسلک کچھ جہازوں نے بظاہر اس بحری گزرگاہ سے اجتناب کرتے ہوئے افریقہ اور کیپ آف گڈ ہوپ کے گرد طویل راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس طویل راستے سے جہازوں کو رفتار، بڑھتے ہوئے اخراجات اور تاخیر جیسے مسائل کا سامنا ہے اور یہ سفر تقریبا 19 دن سے 31 دن تک طویل بن گیا ہے۔عالمی تیل کی منڈی حالیہ حملوں سے پریشان ہیں۔ لیکن اس گمرگاہ کی بندش سے قیمتوں کے بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔حوثیوں کے حملوں سے فوری اثر بیمہ کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہے۔