الیکشن التواء کون چاہتا تھا؟ : تحریر سہیل وڑائچ


سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح اور سخت احکامات کے بعد الیکشن کے التواء کی افواہیں، خواہشیں اور کوششیں دم توڑ گئی ہیں اور اب سوائے مارشل لا کے نفاذ کے 8 فروری کے انتخابات میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی، موجودہ عسکری قیادت مارشل لا یا ٹیک اوور کا کبھی خیال تک نہیں لائی اور کبھی کوئی ایسا ذکر بھی کرے تو اسے فوراً خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

الیکشن التواء کے حوالے سے پاکستان کے سب سے طاقتور شخص اور پاکستان کے دوسرے بڑے طاقتور شخص میں پہلے ہی سے یہ سوچ موجود تھی کہ الیکشن 8 فروری کو ہونے چاہئیں، دونوں اس حوالے سے بھی ایک صفحہ پر ہیں کہ نواز شریف کو ماضی میں غلط طور پر اقتدار سے الگ کیا گیا جس سے سیاسی اور بے پناہ معاشی نقصان ہوا، دونوں یہ بھی چاہتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ ہونا چاہئے۔

الیکشن کے التواء کی تجاویز طاقتور ترین افراد کے دو اہم مشیروں اور دو نگران شخصیات کی طرف سے آئی تھیں،ان تجاویز میں کہا گیا تھا کہ ملک میں معاشی استحکام آنا شروع ہوگیا ہے اگر الیکشن ہوا تو یہ معاشی استحکام قائم نہیں رہے گا۔

ان تجاویز میں یہ رائے دی گئی تھی کہ بیرون ملک سے جواربوں ڈالر آ رہے ہیں ان کا بہتراستعمال نگران اور موجودہ مقتدرہ بہترین طور پر کرسکتے ہیں، اگر سیاسی حکومت آگئی تو وہ یہ اربوں ڈالر سیاسی منصوبوں پر اُڑا دے گی۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ فوری الیکشن میں پی ٹی آئی کی جیت کو روکنا مشکل ہوگا۔

اس کالم نگار نے جب بالائی حلقوں میں یہ افواہ سنی تو اسے بغیر مرچ مصالحے کے شائع کردیا، اندازہ تھا کہ اس کا منفی ردعمل ہوگا اور ویسا ہی ہوا، مسلم لیگ ن اور ملک کے دوسرے طاقتور ترین شخص نے سخت اور واضح موقف لیا کہ نہیں الیکشن 8 فروری کو ہی ہونے چاہئیں، میں نے التواء کی افواہ کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالتی شخصیت التواء کی تجویز کو کامیاب نہیں ہونے دے گی اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔

یادش بخیر پنجاب کے وزیر تعلیم چودھری ممتاز حسین کا ایک واقعہ درج کرنا ضروری ہے۔

چودھری ممتاز حسین ہی وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے کالجوں میں اور تعلیمی اداروں میں پہلی بار سختی سے میرٹ کا نظام قائم کیا، یہی نظام آج تک جاری و ساری ہے، چودھری ممتاز حسین نے ایک بار فون کرکے مجھے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر بلایا میں تازہ تازہ رپورٹر بنا تھا، جلدی جلدی وہاں پہنچا تو وہ آفس سے اٹھ کر مجھے لان میں لے آئے تاکہ ان کی بات ریکارڈ نہ ہو سکے اور پھر مجھے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے مجھے کہا ہے کہ ریس کورس لاہور میں ایک فائیو سٹار ہوٹل بننے کی منظوری دے دو۔ چودھری ممتاز حسین نے کہا کہ اس ہوٹل کے قیام سے ریس کورس پارک کا سارا حسن ختم ہو جائے گا میری خواہش ہے کہ تم یہ خبر دے دو کہ ریس کورس پارک میں ایک فائیو سٹار ہوٹل بنایا جا رہا ہے۔

چنانچہ دوسرے روز ’’روزنامہ جنگ‘‘ کے صفحہ اول پر یہ خبر شائع ہوگئی، حسب توقع اس منصوبے کے خلاف منفی ردعمل آیا اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس منصوبے سے دست کش ہونا پڑا ۔

بعض دفعہ خبر دینے، افواہ درج کرنے یا کسی کو EXPOSE کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس منصوبے کو وقت سے پہلے طشت ازبام کردیا جائے تاکہ وہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پائے۔ یہ صحافت کی طاقت ہے اور ہم سب صحافی EXPOSE کرکے کئی غلط، غیر آئینی اور غیر جمہوری کاموں کو روکنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں، الیکشن کے التواء کی افواہ شائع کرنے کا بھی یہی مقصد تھا، توقع کے عین مطابق اس افواہ کا موثر تدارک ہوگیا۔

8 فروری کا الیکشن اب سر پر آ چکا ہے لیکن ابھی تک سیاسی جماعتیں انتخابی مہم شروع نہیں کرسکیں۔ ن لیگ اپنی ٹکٹیں فائنل کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے لیکن فی الحال تحریک انصاف کے بارے میں دھند صاف نہیں ہوسکی۔

 یہ واضح نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے کون الیکشن لڑ سکے گا اور کون نہیں؟ پی ٹی آئی کے بہت سے عہدیدار منظر عام سے ہی غائب ہیں، ابھی کل ہی حماد اظہر کو پنجاب کا صدر بنایا گیا ہے لیکن وہ کہاں موجود ہیں کسی کو علم نہیں، ٹکٹیں تقسیم کرنے میں پنجاب کے صدر کا اہم کردار ہوتا ہے، ان کی غیرموجودگی میں یہ کام کون کرے گا کسی کو علم نہیں۔ تحریک انصاف کا پارلیمانی بورڈ کون سا ہوگا، اس کے اجلاس کب ہوں گے، ٹکٹ لینے والے کہاں اپلائی کریں گے۔ یہ سارے وہ سوال ہیں جن کا فی الحال کوئی جواب نہیں مل رہا۔

اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ لوگ کاغذات نامزدگی جمع کروا کے ہی پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے لئے رجوع کریں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے حوالے سے یہ غیر یقینی صورتحال الیکشن تک اسی طرح برقرار رہے گی۔ جس سے تحریک انصاف کیلئے اپنی، ووٹ کی طاقت کا بھرپور استعمال مشکل سے مشکل تر بنا دیا جائے گا۔

اب جبکہ الیکشن ہونے جا رہے ہیں تو ریاستی ادارے نئے سرے سے نتائج کے حوالے سے اندازے لگا رہے ہیں،ان اندازوں کے مطابق ن لیگ پنجاب کی 141 نشستوں میں سے زیادہ سے زیادہ 80 سے 90 سیٹیں جیتے گی۔ جبکہ ادارے کا اندازہ ہے کہ اگر ووٹ کم پڑےتب بھی ن لیگ 60 سے 70 نشستیں جیت لے گی۔ اسی طرح لاہور کی 14 میں سے 8 نشستوں پر ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے جبکہ 6 نشستوں پر پی ٹی آئی کا ووٹ بینک مشکلات پیدا کرے گا۔

ایک ادارے کا خیال ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد ن لیگ جب انتخابی مہم میں اترے گی تو دیہات کے وہ دھڑے جو تحریک انصاف سے مایوس ہوں گے وہ بھی ن لیگ کا ساتھ دیں گے، یوں آنے والے دنوں میں نون کا ووٹ بڑھنے کا امکان ہے۔

تحریک انصاف کا شہری ووٹر کیا کرے گا؟ اس بارے میں ادارے ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ خوف اور ناامیدی کی وجہ سے ووٹروں کی بڑی تعداد گھروں سے نہیں نکلے گی جبکہ کئی افراد یہ رائے دے رہےہ یں کہ پی ٹی آئی کا ناراض ووٹر الیکشن کے انتظار میں ہے اور وہ اس دن قطار اندر قطار نکل کر سب کو حیران کردے گا۔

خیال ظاہر کیا جارہا ہےکہ اگر پولنگ ریٹ 45 سے 50 فیصد ہوا تو ن لیگ جیت جائے گی لیکن اگر پولنگ ریٹ 60 سے 70 فیصد ہوگیا تو اس کا مطلب ہوگا کہ پی ٹی آئی کا نوجوان ووٹر باہر نکل آیا ہے اور پھر شہروں کے نتائج پی ٹی آئی کے حق میں ہوں گے۔

دنیا کا ہر الیکشن کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور لاتا ہے، 8 فروری کا الیکشن بھی پاکستانی سیاست اور ریاست میں تبدیلی لے کر آئے گا۔ توقع یہ کرنی چاہیے کہ انتخابات میں ایسی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے کہ الیکشن نتائج سب کیلئے قابل قبول ہوں، نتائج قبول ہوں گے تو اگلی حکومت چل سکے گی وگرنہ ماضی کی طرح دھاندلی زدہ اسمبلی اور دھاندلی زدہ حکومت کا الزام چلتا رہے گا۔

نہ کوئی لاڈلا ہونا چاہیے اور نہ کوئی سوتیلا، سب اس قوم کے بیٹے ہیں، سبھی کو برابری اور انصاف ملنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ