کاغذ کے کارخانے ناگزیر : تحریر محمود شام


کاغذ مہنگا ہورہا ہے۔کتابیں مہنگی ہورہی ہیں۔

بچوں کیلئے درسی کتابیں بھی عام پاکستانی کی قوت خرید سے باہر ہورہی ہیں۔ بہت کم کتابیں ہیں جو ایک ہزار سے زیادہ شائع ہوتی ہونگی۔ پہلے عام طور پر کتاب کا پہلا ایڈیشن ایک ہزار تو ہوتا ہی تھا۔ پھر 500کا ہوا۔ اب دو یا تین سو۔ شاعری کے مجموعے تو شاعر کو پیسے دے کر چھپوانا پڑتے ہیں۔ پھر اعزازی نسخے بانٹنا پڑتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو ڈجیٹل پرنٹنگ کا کہ اب جتنی کاپیوں کی ضرورت ہو وہ تیار کرلیں۔ زیادہ چھاپ کر گھر یا دوکان میں جگہ نہیں گھیرنا پڑتی۔

یہ اس ملک کی بات ہے جو بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کے طور پر حاصل کیا گیا۔ جہاں عزم یہی تھا کہ ہم یہاں اپنے شعائر اپنے دین، اپنی روایات کے مطابق زندگی گزاریں گے جو خطّہ پہلے سے ہی ادب، ثقافت، علم، تحقیق سے مالا مال تھا۔

اٹھارویں عالمی کتاب میلے کا افتتاح ہورہا ہے۔ نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر مہمان خصوصی ہیں۔ سینٹر فیصل سبزواری کلیدی خطبہ پیش کررہے ہیں۔ سامنے ادیب، نقاد، اساتذہ،اسکول مالکان، ملک بھر سے آئے ہوئے پبلشرز ہمہ تن گوش ہیں۔ بے یقینی کے عالم میں کتاب میلے کا انعقاد بہت غنیمت ہے۔ سال کا آخر عالمی اُردو کانفرنس، ادب فیسٹیولز، کتاب میلوں پر ہوتا ہے تو امید بندھتی ہے کہ ہم پاکستانی پھر سے مہذب ہوجائیں گے۔ حرف و دانش سے ہمارا رشتہ پھر سے استوار ہوجائے گا۔ لائبریریاں پھر سے معلومات کی روشنی پھیلائیں گی۔ وادیٔ سندھ کی اپنی علمی اور ادبی روایات ہیں۔ تصوّف کے سلسلے ہیں۔ شاہ لطیفؒ، سچل سرمست، شہباز قلندرؒ کا کلام دشت و صحرا۔ کیٹیوں میں گونجتا ہے۔ کینجھرکی لہریں شاہ کے سُر گنگناتی ہیں۔ ایسے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کی مسند پر فائز جب ایک ماہر قانون کو ایک اجتماع سے خطاب کا موقع ملتا ہے تو وہ حرف و ورق، لوح و قلم، حکمت و عدل کے حوالے سے بہت دل نشیں پیغامات دے سکتا ہے، اس کے معاون، مشیر، وزیر اطلاعات، وزیر تعلیم، وزیر ثقافت اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ ایک صنعت جو اب تڑپ رہی ہے۔ جان کنی کی حالت میںہے اور جس میں نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسا سرکاری ادارہ بھی شریک عمل ہے اور جو ایک مستقل سالانہ تقریب بھی ہے۔ اس کیلئے تو تیاریاں ہونی چاہئیں۔ سامعین سب ہی کتاب، کاغذ، طباعت، لائبریریوں کے مسائل پر حکومت سندھ کی پالیسیاں سننے کیلئے بے تاب ہیں۔ مگر وہ کچھ عجلت میں ہیں، اس لیے چند جملے کہنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ کتابوں کا یہ 18 واں میلہ ہے۔ ان 18 برسوں میں حکومت سندھ کے وزرائے اعلیٰ بھی آتے رہے ہیں۔ وزیر تعلیم پیر مظہر الحق باقاعدگی سے آتے ہیں۔ وزیر تعلیم وثقافت سید سردار علی شاہ، مہمان خاص کے طور پر بھی اور ایک عام کتاب نواز کی حیثیت سے بھی۔ ان تقریبات کے ریکارڈ تو حکومت سندھ کے پاس ہونگے۔ اب تو ثقافت کے علمبردار سید احمد شاہ بھی نگراں حکومت کا حصّہ ہیں۔ وزیر ہیں، ان کی گاڑی پر بھی سبز ہلالی پرچم لہرارہاہے۔ وہ ہی نگراں وزیر اعلیٰ کیلئے کچھ نکات تیار کرسکتے تھے۔ فیصل سبزواری نے خیر اس کمی کو بڑی حد تک دور کیا۔ کتاب اور معاشرے سے متعلقہ امور پر بہت شستہ اُردو میں اظہار کیا۔ جنرل مشرف کے عہد میں اس کتاب میلے کا بھی عروج رہا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائدخصوصی طور پر پیغام جاری کرتے تھے۔

آج اتوار ہے،اپنے بیٹوں بیٹیوں،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں سے دوپہر کے کھانے پر ملنے کا دن۔ لیکن آج میری استدعا ہوگی کہ آپ ان سب کو ساتھ لے کر ایکسپو سینٹر آئیں۔ شکم کی خوراک تو اپنی جگہ۔ لیکن خیال کی خوراک بھی تو ضروری ہے۔ آپ کے ذہن کو بھی بھوک لگتی ہے۔ دل کو بھی تازگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک گلہ ساتھ ساتھ کرتا چلوں کہ کتاب میلے کے منتظمین جو حرف و دانش کی سرپرستی میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ بھی اخبار نہیں پڑھتے ہیں۔ جمعرات کے روز میلے کی ابتدا ہورہی تھی۔ ہم نے لکھا کہ آج کتاب میلے میں ملتے ہیں۔ عام شہری تو مل کر کہہ رہے تھے۔ آپ نے کالم میں کہا ہم حاضر ہوگئے۔ لیکن میلے کے منتظمین، بڑے پبلشر، بک سیلر کسی نے اخبار نہیں دیکھا تھا۔ میرے لیے تو تشویش کی بات ہے کہ کتاب کے ناشرین اور فروخت کنندگان کے تو رزق کا ذریعہ بھی حرف مطبوعہ ہے۔ کتاب پڑھیں گے تو اخبار بھی پڑھیں گے۔ اخبار رسالے پڑھیں گے تو کتاب بھی پڑھیں گے۔ ’اقرا‘ تہذیب کی اساس ہے۔ کاغذ تاریخ کا محافظ ہے۔ کاغذ نسلوں کا رشتہ آپس میں جوڑتا ہے۔ لائبریریوں میں صدیاں سانس لیتی ہیں۔ زندگی گزارنے کے طریقے بتاتی ہیں۔ قومیں کیسے کامیاب ہوئیں کیسے ناکام ہوئیں۔ جنگوں میں کون فاتح ہوا۔ کس کو شکست ہوئی۔ یہ بھی کاغذ ہی بتاتاہے۔عزیز خالد ہر سال گلہ کرتے ہیں کہ کاغذ کی در آمدپر ڈیوٹیاں کم کی جائیں، لائبریریاں کتابیں خریدیں، ٹیکسٹ بک بورڈز میں بد عنوانیوں کو لگام دی جائے۔ لیکن ہر سال یہ گلہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔ کوئی سرکاری مہمان خصوصی اس اہم ترین مسئلے کو اہمیت نہیں دیتا۔ پنجاب سے تو اچھی خبریں آتی ہیں کہ وہاں کی پبلک لائبریریاں کتاب دوست ہاتھوں میں ہیں۔ اس لیے وہ خود دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی معیاری معلوماتی کتاب شائع ہوئی ہے تو اس کے نسخے ہر لائبریری میں ہونے چاہئیں۔ لاہور میں مولانا عبدالستار عاصم کتاب کے عشق میں نگر نگر پھرتے ہیں۔ ان کا مشن ہے کہ ہر گھر،محلّے، گاؤں،اسپتال،جیل، کالونی، اسکول، کالج، یونیورسٹی میں ’پاکستان لائبریری‘ کے نام سے گوشے قائم کیے جائیں۔ وہ اس کی بنیاد کے لیے 101کتب جن کی قیمت دو لاکھ روپے ہے۔ صرف 30 ہزار میں پیش کررہے ہیں۔ بلوچستان میں پشین میں حاجی عبدالنبی لالہ بھی ہر اسکول ہر مسجدمیں کتب خانہ کے قیام کیلئے سرگرداں رہتے ہیں۔ پہلے جب قومی سیاسی جماعتیں قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر فوقیت دیتی تھیں تو یہ ہر شہر میں پارٹی کی طرف سے دارُالمطالعہ قائم کرتی تھیں۔ طالب علم ، سیاسی کارکن ان مطالعہ مراکز میں آکر اپنی پارٹی کا لٹریچر بھی پڑھتے تھے۔ اخبار رسالے کتاب بھی۔ ان دنوں انتہا پسندی تھی نہ دہشت گردی اور نہ مالی لوٹ کھسوٹ۔

حرف مطبوعہ، پرنٹ کے جو بھی خیر خواہ ہیں۔ میری معزز کالم نویسوں۔ عطاء الحق قاسمی، انصار عباسی، عرفان صدیقی، الطاف حسن قریشی، جاوید چوہدری، اظہار الحق، حامد میر، کشور ناہید، منصور آفاق، مظہر برلاس، امر جلیل، شعبۂ اُردو، شعبۂ ابلاغیات کے اساتذہ سے گزارش ہوگی کہ ہمیں ملک میں کاغذ کے کارخانے قائم کروانے کی مہم چلانی چاہئے۔ کاغذ کیلئے خام مال موجود ہے۔ بینک اس کی مالی کفالت کرسکتے ہیں۔ کاغذ تہذیب کا ضامن ہے۔ اسکرین اپنی جگہ معلومات دیتی ہے۔ لیکن اس سے تمدن، شائستگی، بے اماں ہوتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ