سولہ دسمبر 2014 کا دن تو مجھے ایسے یاد ہے کہ جیسے کل کی بات ہو۔ ان دنوں میں جاگ ٹی وی میں بطور رپورٹر کام کر رہی تھی۔ سینیٹ کی ایجوکیشن کی کمیٹی کا اجلاس چل رہا تھا۔ میری ڈیوٹی لگی تھی۔ سینیٹر روبینہ خالد کے سائلینٹ موبائل کی روشنی جل بجھ رہی تھی۔ جسے پہلے وہ نظر انداز کر رہی تھیں۔ پھر شاید میسج آیا۔ سینیٹر روبینہ خالد کے چہرے کا رنگ ایک دم بدلا انہوں نے موبائل زور سے ٹیبل پر رکھا اور کہا کمیٹی کا اجلاس ختم کریں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہو گیا ہے۔ اجلاس فوری ختم ہو گیا سب اٹھ گئے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ حملہ کس نوعیت کا ہوا ہو گا۔ میں نے دفتر فون کیا کہ گاڑی پارلیمنٹ ہاوس بھیج دیں ڈیسک پر سمیع اللہ خان صاحب بیٹھے تھے انہوں نے کہا زارا جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے راولپنڈی پریس کلب میں آنا ہے آپ کو گاڑی بھیج رہا ہوں اور وہاں چلی جائیں۔ گاڑی آنے پر میں راولپنڈی پریس کلب چلی گئی سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے جماعت اسلامی کا پروگرام ہونا تھا۔ قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا یہ چمن ہم کو آدھا گوارا نہیں گونج رہا تھا ٹائم گزرتا جا رہا تھا ظہر سے عصر اور عصر سے مغرب ہونے کو تھی سراج الحق نہیں آ رہے تھے موبائل کی بیٹری ختم رہی تھی۔ چونکہ سراج نے دن تین بجے خطاب کرنا تھا تو لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام لان کی دھوپ میں کیا گیا تھا۔ لیکن سراج الحق تھے کہ آ ہی نہیں رہے تھے۔ خنکی ناقابل برداشت ہو رہی تھی ساتھ ساتھ حالات کی سنگینی کا احساس بھی بڑھ رہا تھا۔ پھر عندیہ ملا کہ وہ آ گئے ہیں۔ بہت ہی دکھ بھرے انداز میں سراج الحق نے کہا میں اپنے ہاتھوں سے ننھے پھولوں کی لاشیں اٹھا کر آیا ہوں۔ اور پھر جو نقشہ انہوں نے کھینچا وہ ہماری سانسیں روکنے کے لیے کافی تھا مختصر گفتگو کے بعد سراج الحق واپس روانہ ہو گئے کہ پشاور واپس پہنچنا تھا آفس جا کر ٹی وی پر جب حالات دیکھے تو دل پھٹنے لگا تھا۔ اس دن کا ایک ایک لمحہ مجھے یاد ہے۔ کاش کہ وہ دن ہماری زندگیوں میں نہ آیا ہوتا ہم نے ننھے منے بچے کے وہ لاشے نہ دیکھے ہوتے۔ ہم نے ماں باپ کو یوں تڑپتے نہ دیکھا ہوتا۔
اسی حادثے کے بعد دفتر کی طرف سے گجرخان کے گاوں کرنب جگیال بھیجا گیا۔ جہاں اس حادثے میں نائیک ندیم الرحمن انجم بھی شہید ہوئے تھے۔ ان کی فیملی کا انٹرویو کرنا میرے لیے بےحد مشکل کام تھا۔ نائیک ندیم الرحمن انجم شہید 17 ستمبر 1983 کو کرنب جگیال میں پیدا تھے۔ ان کے والد گورنمنٹ بوائز سکول چک مسلم میں پرائمری ٹیچر ہیں۔ پانچ بہنوں اور دو بھائیوں میں ندیم شہید پہلے نمبر پر تھے۔ بڑا بھائی ہونے کے ناطے احساس ذمہ داری بھی زیادہ تھا۔ گاوں کے اس سادہ سے گھر میں جب ہم گئے تو ایک طرف نیا کمرہ بنا ہوا تھا ہمیں اسی پورشن میں بیٹھایا گیا۔ ندیم شہید کے والد صاحب انتہائی حوصلے میں تھے۔ والدہ ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ کہہ رہی تھی شہید ہے نا شہید پر رو بھی نہیں سکتے۔ یہ صبر ہمت اور حوصلہ ہماری آنکھوں میں آنسو لا رہا تھا۔ نرسنگ کے شعبے سے وابستہ نائیک ندیم الرحمن انجم اس دن آرمی پبلک میں ڈیوٹی پر تھے۔ دشمن کی بزدلانہ کارروائی کے نتیجے میں خالق حقیقی سے جا ملے اور جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کی منگنی ہوئی تھی اور وہ نیا کمرہ انہی کے لیے بنایا گیا تھا تین ماہ بعد انکی شادی تھی لیکن 16 دسمبر کا دن سب کچھ بہا کر لے گیا۔ ماں باپ کے خواب، بہنوں کے ارمان، چھوٹے بھائی کا مان۔ پیچھے بس یادیں یادیں اور یادیں ہیں آج بھی ندیم شہید کے والد سے بات ہوتی ہے تو بہت صبر والے انکل بہت حوصلے سے اپنے شہید بیٹے کا ذکر کرتے ہیں۔ آج کہنے لگے بیٹا جی ہم خوش قسمت ہیں کہ اللّٰہ نے ہمیں ایسا فرزند عطا کیا جو اس وطن پہ قربان ہو گیا ۔
لیکن ہم دنیادار ہیں کمزور ہیں اس لئیے اس کی جدائی بہت اداس کر دیتی ہے۔
اللہ نے اس قوم کو بہت صبر بہت ہمت اور بہت جگرا دیا ہے جو موت کو بہادری سے گلے لگا لیتی ہے۔ جو جوان بیٹوں کی شہادت پر آنسوؤں کو پلکوں کی باڑ پار کر ان کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیتی۔ یہ دکھ صرف ان شہدا کے خاندانوں کا دکھ نہیں ہے یہ ہمارا اجتماعی دکھ ہے جو شاید ان کے والدین کے ساتھ ہمارے دلوں سے بھی کبھی مدھم نہیں ہو گا۔ ہم ہمیشہ اس دن کا سوگ منائیں گے۔