احمد سلیم طویل علالت کے بعد 11 دسمبر کو رخصت ہو گئے۔ 26 جنوری 1945کو منڈی بہاوالدین کے قصبے میانہ گوندل میں پیدا ہونے والے محمد سلیم خواجہ کی زندگی تین نکات سے عبارت رہی، علم کی ایسی لگن جس نے بلامبالغہ سینکڑوں کتابوں، تحقیقی مقالوں اور تراجم کی صورت اردو، پنجابی اور سندھی سمیت پاکستان کے ذخیرہ علم کو ثروت مند کیا۔ وہ جمہوریت پسند مارکسسٹ تھے چنانچہ مزدوروں، عورتوں، مذہبی اقلیتوں اور اختیار کی ایک غیرمنصفانہ تقسیم کے بھنور میں گرفتار وفاقی اکائیوں کے لئے انصاف کی لڑائی ان کے لئے سانسوں کا لگان قرار پائی۔ خود نمائی کا ہنر نہیں جانتے تھے۔ ہر ذمہ داری ایسے انکسار سے نبھاتے تھے کہ کسی کو شاذ ہی کبھی احساس ہوا ہو کہ احمد سلیم کی صورت میں ہمیں کس یگانہ روزگار ہستی سے واسطہ ہے۔ بندہ بے مایہ کے لئے یہ دعوی مشکل ہے کہ احمد سلیم کو اپنا دوست لکھ سکوں۔ وہ استاد تھے اور ایسا استاد جو چھوٹی چھوٹی اینٹوں والی شفقت بھری گلیوں میں پاپیادہ گزرتے ہوئے رہنمائی اور دل آسائی کی لکیر مٹا دے۔
ابتدائی تعلیم پشاور میں مکمل کر کے احمد سلیم کراچی چلے گئے۔ فیض صاحب کی تحریک پر عبداللہ ہارون کالج میں داخل ہوئے۔ یہیں 1964 میں ایوب آمریت کی مخالفت میں قید و بند کا مزہ چکھا۔ فیض، شیخ ایاز، گل خان نصیر اور غنی خان سمیت پاکستان کی کم و بیش ہر مزاحمتی آواز سے احمد سلیم کا ذاتی تعلق تھا لیکن وہ ان حوالوں کو آستین پر اوڑھ کر نہیں چلتے تھے۔ کچھ برس ایک بینک کی ملازمت کی۔ نیشنل عوامی پارٹی سے وابستہ تھے۔ مارچ 71 کے فوجی آپریشن کی مخالفت پر رونق زندان ہوئے۔ فیض صاحب نیشنل کونسل آف آرٹس کے سربراہ ہوئے تو احمد سلیم کو پنجابی اور سندھی ثقافتی ورثے کی ذمہ داری سونپی۔ یہ پڑاؤ عارضی رہا لیکن احمد سلیم پاکستان کے علاقائی ورثے کی محبت میں مبتلا ہو گئے۔ شیخ ایازانہیں سندھ یونیورسٹی جامشورو لے گئے جہاں انہوں نے شاہ لطیف بھٹائی کو پنجابی اور شاہ حسین کو سندھی میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ جو بیجل نے آکھیا کے عنوان سے شیخ ایاز کے کلام کا پنجابی ترجمہ کیا۔ ضیا آمریت نمودار ہوئی تو احمد سلیم روزنامہ امن سے وابستہ ہو گئے۔ قلیل آمدنی کو سہارا دینے کے لیے ان گنت تراجم کیے۔ ٹی وی ڈرامے لکھے۔ اس دوران شادی کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ 1981 میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے فلسفہ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ محنت کشوں کے رسالے جفاکش کی ادارت کی۔ کچھ برس کراچی یونیورسٹی میں پاکستانی زبانوں کی تعلیم بھی دی۔ 1988 میں لاہور منتقل ہوئے۔ درویش کمیونسٹ پارٹی کا رکن تھا لیکن نہاں خانہ قلب میں مارکس کے تصور انصاف اور کمیونسٹ آمریت میں کشمکش جاری تھی۔ عالمی ادب پر گہری نظر رکھنے والے احمد سلیم نے مایا کووسکی، انا اخماتووا، مینڈل سٹام، کوئسلر، لورکا اور گرامچی کی کتابیں پڑھا کر انحراف کے اس شعلے کو ہوا دی۔ ناچیز بیروزگاری اور بے گھری کی دوہری آزمائش میں تھا۔ دو جوڑے اٹھائے، پونچھ روڈ پر احمد سلیم کے گھر پہنچ گیا۔ وہاں چھت تک کتابیں چنی تھیں۔ تحقیق کے مشاغل تھے، دو وقت کی روٹی تھی اور ایک خاموش طبع احمد سلیم جس نے گیارہ مہینے تک اس بندہ کم مایہ کو سونے کے لیے چارپائی عنایت کی اور خود رات گئے دری پر سو جاتا تھا۔ مجھے دبی آواز میں تادیب کرتے تھے کہ تم محنت نہیں کرتے۔ سچ یہ ہے کہ یہ آوارہ منش طبعا کاہل اورقلم گریز ہے۔ ادھر احمد سلیم سگریٹ سمیت تمام لطیف مشاغل سے دور کتابوں میں گم رہتے تھے۔ 1991 میں خبر ملی کہ موچی دروازے کے قریب کسی کباڑیے کے پاس پاکستان ٹائمز کی فائلیں رکھی ہیں۔ پاپڑ منڈی کی تنگ گلیوں میں ریڑھی یا تانگے کا گزر بھی مشکل تھا۔ تنگ دست احمد سلیم نے شب و روز عرق ریزی سے جو کمایا تھا، پرانی کتابیں اور اخبارات خریدنے پر خرچ کر دیا۔ ایک منظر یاد آتا ہے۔ پاکستان ٹائمز کی بھاری بھر کم فائلوں کا ایک پلندہ احمد سلیم نے سر پر اٹھا رکھا ہے اور دوسرا اس مغبچے کے سپرد تھا۔ اس خزانے سے سائوتھ ایشین آرکائیو اینڈ ریسرچ سنٹر کی بنیاد رکھی گئی۔
1995 میں ایس ڈی پی آئی اسلام آباد چلے گئے تھے۔ ملاقات کم ہو گئی۔ پھر احمد سلیم کے عارضہ جگر کی خبر ملی۔ میں نے ایک مجلس میں شوخ چشمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تو کبھی جگر کو زحمت ہی نہیں دی۔ آپ پر یہ عذاب کیوں اترا؟ جواب میں مسکرائے نہیں، کسی قدر آزردہ تھے۔ پرویز رشید کی کاوش سے احمد سلیم کا کامیاب علاج ہوا۔ پرویز رشید ایسے ہی ہیں۔ ذاتی فائدے سے بے نیاز اور دوسروں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار۔ احمد سلیم پنجابی شاعر تھے۔ ان کے اتباع میں اس کم سواد شاگرد نے بھی پنجابی نظم میں کچھ کج مج بیانی کی۔ اگرچہ ذرہ بے مایہ کو احمد سلیم کے بحر بے کنار سے کیا نسبت۔ حالیہ برسوں میں یہ سوچ کر ملاقات سے گریزاں رہا کہ انہیں بوجہ علالت زحمت ہو گی۔ خیال تھا کہ اسلام آباد ہی میں مقیم ہیں اور پھر 11 دسمبر کی شام وہ خبر آ گئی جو بہرصورت آنا ہی ہوتی ہے۔ مجھے لاہور میں ان کی تدفین کا علم نہیں ہو سکا۔ جب خبر ملی تو جنازے کا وقت گزر رہا تھا۔ ن۔ م راشد کے بیٹے شہریار کو بھی ایسی ہی کچھ صورت پیش آئی تھی اور انہوں نے کہا تھا چلئے یوں بھی ہونا تھا۔ احمد سلیم اپنے پیچھے انسان پروری، علم دوستی، سیاسی شعور، تاریخ کے فہم اور اپنی ذات کی نفی کر کے افتادگان خاک کا امتحان بیان کرنے کی روایت چھوڑ گئے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں پہلی ملاقات ہوئی تو ہماری تاریخ میں جبر و اختیار کی بے چہرہ لڑائی درپیش تھی۔ احمد سلیم رخصت ہوئے تو اقتدار کے میدانوں پر ویسی ہی دھند اتری ہوئی ہے۔ شاید اسی کو جدلیات کہتے ہیں۔
کہتے چلو فسانہ ہجراں
اب بھی رات کی رات پڑی ہے
بشکریہ روزنامہ جنگ