سپریم کورٹ نے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی۔
اپیل پر ایک چھ رکنی لارجر بنچ بنایا گیا اور اس لارجر بنچ نے سپریم کورٹ کے پہلے حکم کو معطل کر دیا ہے۔ جس کے بعد سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائلز دوبارہ شروع ہونے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ میں اس کیس کے قانونی پہلوں پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ کیس ابھی چل رہا ہے۔ ابھی بہت سے نشیب و فراز سامنے آنے ہیں۔
اس لیے قانونی بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔ جہاں تک اس کیس کے سیاسی محرکات کا معاملہ ہے تو یہ بات صاف ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے حامی اس وقت نو مئی کے ملزمان کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح نو مئی کے ملزمان کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ممکن نہ ہو سکے۔ یہ کوئی سول بالادستی یا سول نظام انصاف کی بالا دستی کی لڑائی نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف نو مئی کے ملزمان کو ملٹری کورٹس سے بچانے کی لڑائی ہے۔
جہاں تک تحریک انصاف کے بانی کا تعلق ہے تو ماضی میں وہ سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے زبردست حامی رہے ہیں۔ ان کے ٹی وی انٹرویوز موجود ہیں جن میں وہ سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔
بات صرف اتنی نہیں ہے بلکہ چیئرمین تحریک انصاف کے دور حکومت میں پشاور ہائی کورٹ نے سویلینز کو ملٹری کورٹ کی جانب سے دی جانے والی سزائیں ختم کر دی تھیں۔ لیکن چیئرمین تحریک انصاف نے بطور وزیراعظم سپریم کورٹ میں اپیل فائل کی اور درخواست کی کہ سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کو جائز قرار دیا جائے اور پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی سزائیں دوبارہ بحال کی جائیں۔
چیئرمین تحریک انصاف کی بطور وزیراعظم دائر کی جانے والی درخواست کی وجہ سے وہ سویلینز آج بھی ملٹری کورٹ کی جانب سے دی گئی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ کیونکہ تب سپریم کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیا تھا۔ جیسے آج دیا گیا ہے۔ کیا اب یہ سمجھا جائے کہ تحریک انصاف کو پاکستان کے باقی شہریوں کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل پر تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
لیکن ان کی صرف ایک کوشش ہے کہ ان کے اپنے لوگوں کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہ ہو۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کا بھی ملٹری کورٹ میں ٹرائل کروانے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ لیکن آج اپنے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے خلاف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملٹری کورٹ میں صرف ان کے مخالفین کے ٹرائل کیے جائیں۔ کل تحریک انصاف اور اس کے لیڈر ڈان لیکس میں مریم نواز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے لیے سیاسی تحریک چلا رہے تھے۔
وہ تو پاک فوج نہیں مانی ان کے نزدیک اس کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ممکن نہیں تھا۔ ورنہ تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین نے پورا زور لگایا تھا۔ان کے لیے مریم نواز کا تو ملٹری کورٹ میں ٹرائل کرانا جائز تھا لیکن نو مئی کے ملزمان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔
اس لیے کل تک جن کے لیے ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل جائز تھا، آج ناجائز کیسے ہوگیا۔ سویلینز کے ملٹری کورٹ کے ٹرائل کے خلاف پٹیشن دائر کرنے والے وکیل سردار لطیف کھوسہ بھی ماضی میں سویلینز کے ملٹری کورٹ کے حق میں ٹرائل کے حامی رہے ہیں۔
لیکن فرق صرف اتنا ہے تب وہ ن لیگ کے لوگوں کے ملٹری کورٹ کے ٹرائل کے حق میں تھے اور آج ان کی پسندیدہ جماعت تحریک انصاف کے لوگوں کا ٹرائل ہو رہا ہے تووہ خلاف ہیں۔ یہی صورتحال کچھ دانشوروں کی بھی ہے یہ دانشور بھی کل جب تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کے ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے حق میں تھے۔
ان کے پاس ملٹری کورٹس کے حق میں دلائل ختم ہی نہیں ہوتے۔ ایک نام نہاد دانشور نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر جب تنقیدی ٹوئٹ کیا تو عوام نے اس کی ماضی کی ویڈیوز کی بھر مار کر دی جب وہ سویلینز کے ملٹری کورٹس کے حق میں دلائل دیتے تھک نہیں رہے تھے۔
آج بھی پاکستان کی جیلوں میں ایسے سویلینز قید ہیں جنھیں ملٹری کورٹس سے سزائیں دی گئی ہیں۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ کو چیئرمین تحریک انصاف کے دور حکومت میں سزائیں دی گئی ہیں اور چیئرمین تحریک انصاف قانون اور سیاسی میدان میں ان سزاؤں کا نہ صرف سیاسی کریڈٹ لیتے تھے بلکہ ان پر فخر بھی کرتے تھے۔
ان سویلینز کے لیے آج بھی کوئی آواز نہیں اٹھا رہا۔ یہ آج بھی قید ہیں، اپنی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں ہے۔ ان کے تو کیس بھی نہیں لگتے اور نہ ہی ان کی ضمانت ہوتی ہے۔
تحریک انصاف کے حامی سیاسی قانونی اور دانشور دوستوں کی یہ بھی رائے ہے کہ جب جسٹس سردار طارق مسعود پر اعتراض کر دیا گیا تھا تو انھیں یہ کیس نہیں سننا چاہیے تھا۔ لیکن یہ دوست چند ماہ قبل جب پی ڈی ایم اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ہم خیال بنچ پر اعتراض کرتے تھے تو کہتے تھے کہ کسی کو بھی مرضی کے جج کیسے دیے جا سکتے ہیں۔
جج لگانا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ کون سا جج کیس سنے گا یہ فیصلہ کسی سائل کا نہیں ہو سکتا۔ پھر بار بار اعتراض کے بعد عمرعطا بندیال اور ان کے ہم خیال ساتھی کیس سنتے رہتے تھے اور فیصلے بھی دیتے تھے۔
یہ دوست تب کیوں نہیں کہتے تھے عمر عطا بندیال پر اعتراض ہو گیا ہے جب مظاہر علی نقوی پر اعتراض ہوگیا ہے تو انھیں کیس نہیں سننا چاہیے۔ اگر ان سب کا اعتراض کے بعد بھی کیس سننا جائز تھا اور اعتراض کے بعد بھی ان کے فیصلے قانونی اور آئینی ہیں تو پھر جسٹس سردار طارق مسعود پر تو انھیں اعتراض کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ان کے اپنے لیے اصول اور دوسروں کے لیے اور ہیں۔ یہی تضاد آج ان کے زوال کا سبب ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ نو مئی کے ملزمان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ریاست کا فیصلہ ہے۔ اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دور کی جائے گی۔
اس ضمن میں انتخابات کے بعد جب نئی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی تو جیسی قانون سازی اور آئین سازی کی ضرورت ہوگی وہ بھی ہو جائے گی۔ ویسے بھی گزشتہ پارلیمنٹ نو مئی کے ملزمان کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے حق میں قرارداد پاس کر چکی ہے اور اب اگر مزید کوئی ضرورت ہوگی تو وہ بھی پوری کر دی جائے گی۔ یہی حقیقت ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس