ہائبرڈ نظام کے بدترین تجربے کے بعد اب کون سا گر آزمایا جائے گا، شاید یہی سوچ ہے جس کے سبب ملکی سیاسی صورتحال کے بارے میں افواہوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ سپریم کورٹ کا کنٹرول آئین پسند ججوں کے پاس آنے اور ان کے واضح احکامات کے باوجود آٹھ فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کے معاملے کو بھی مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں بڑے سٹیک ہولڈر یعنی اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن پر اعتماد نظر آ رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو بلاشبہ اپنی طاقت پر بھروسہ ہے جبکہ نواز شریف کی باڈی لینگوئج کہہ رہی ہے وزیر اعظم کی جاب دینی ہے تو دے دیں، نہیں دینی تو ناں سہی، ن لیگ یہ سمجھ رہی ہے کہ اب ان کے مقابلے کی کوئی اور آپشن دستیاب نہیں۔ ففتھ جنریشن میڈیا وار اور اہم سرکاری اداروں کی عمرانڈوائزیشن کے سبب معاشرہ پہلے ہی گہری تقسیم کا شکار ہے، ایسے میں مقتدر حلقوں کی خواہش تو یہی ہو گی کہ اگلی حکومت مکمل طور پر اس کی مرہون منت رہے، ایسے منصوبے کا لازمی تقاضا ہے کہ عام انتخابات میں کوئی پارٹی واضح اکثریت نہ لے پائے، وفاق کی سطح پر تو اندازہ یہی ہے کہ ن لیگ کی سربراہی میں مختلف سیاسی جماعتوں کی مخلوط حکومت بنے گی، ایک تاثر یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ پنجاب ن لیگ کے حوالے نہیں کیا جائے گا لیکن یہ آئیڈیا قابل عمل نہیں لگتا، پہلی بات تو یہ ہے ن لیگ جتنی مرضی ٹھنڈی ٹھار ہو جائے پنجاب چھوڑنے پر راضی نہیں ہو گی، کھلی بات ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کی حکومت بنانے کا جو خطرہ مول لیا گیا وہ بالخصوص ن لیگ کی مقبولیت کیلئے دھچکا ثابت ہوا جو فطری امر ہے، پھر بھی اس جھٹکے سے نکلا جا سکتا ہے لیکن اگر ایک مرتبہ پنجاب کی حکومت پر کوئی سمجھوتا کر لیا تو پھر سیاست کے ساتھ پارٹی بھی جائے گی، ویسے پنجاب میں ن لیگ کو اس لیے بھی سبقت حاصل ہے کہ میدان میں کوئی سخت جان حریف موجود ہی نہیں، پی ٹی آئی کو نو مئی سمیت بہت سے حساب چکانا ہیں اسی لیے الیکٹ ایبلز کا رخ ن لیگ کی جانب ہی ہے، نواز شریف مقدمات سے فارغ ہو چکے، اب اگر انہوں نے باقاعدگی سے جلسے جلوس شروع کر دئیے تو نہ صرف عوامی پذیرائی ملے گی بلکہ الیکشن کا ماحول بھی بن جائے گا، سسٹم کی تیسری بڑی سٹیک ہولڈر پیپلز پارٹی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کے سبب کچھ لڑکھڑانے کے بعد اب سنبھلنے کی کوشش کر رہی ہے، آصف زرداری نے تازہ انٹرویو میں جو کچھ کہا ہے اس کا آسان ترجمہ یہی بنتا ہے بندہ ناچیز آپ کی رضا میں راضی ہے۔ اس سے پہلے شاید یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ عمرانی تجربے کی تباہ کاریوں میں الجھی اسٹیبلشمنٹ پر دبا ڈال کر اقتدار کے کیک میں زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے کسی نہ کسی سطح پر پی ٹی آئی سے بھی رابطے تھے مگر اسٹیبلشمنٹ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ پہلے بلوچستان میں ن لیگ کو موقع دیا گیا جس سے یہ تاثر بن گیا کہ صوبے میں اگلی حکومت ن لیگ اور اتحادی جماعتوں کی ہو گی، پیپلز پارٹی ابھی صورتحال کو پوری طرح سے بھانپ نہیں پائی تھی کہ سندھ میں ایک بڑا انتخابی اتحاد بننا شروع ہو گیا جس میں ایم کیو ایم، ن لیگ، جی ڈی اے اور جے یو آئی شامل ہو گئے، سندھ میں انتخابی معرکے سخت ہو سکتے ہیں لیکن دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی کی مضبوط گرفت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں، اس لیے اگر سندھ پھر پیپلز پارٹی کے پاس چلا گیا تو کوئی حیرانی نہیں ہو گی، سب سے پیچیدہ معاملہ کے پی کے کا ہے، وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر جے یو آئی مختلف مواقع پر اپنی ناراضی کا ظہار کر چکی ہے، جب یہ کہا جاتا ہے کہ الیکشن کیلئے پہلے مناسب ماحول فراہم کیا جائے تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ سکیورٹی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے، مولانا فضل الرحمن کہہ چکے ہیں کہ انہیں ان عناصر سے اتحاد کرنے کا پیغام دیا جا رہا ہے جنہوں نے ملک، صوبے اور معاشرے کا بیڑا غرق کیا، مولانا کا اشارہ پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی طرف ہے، ادھر پرویز خٹک نجانے کس کی یقین دہانی پر ابھی سے خود کو وزیر اعلی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں، افغانستان کے ساتھ کشیدہ ہوتے تعلقات کے باعث شاید یہی سوچا جا رہا ہے کہ کے پی کے میں جے یو آئی کی حکومت بن گئی تو افغان طالبان کے ساتھ کئی معاملات میں ہم آہنگی رکھنے کے سبب زیادہ سوٹ نہیں کرے گی، ایسی صوبائی حکومت بجا طور پر خود کو کافی طاقتور بھی محسوس کرے گی اور اپنے مشورے منوانے کی کوشش کرے گی، اس لیے خطے کے حالات کے تناظر میں پرویز خٹک جیسے آزمودہ فرمانبردار کو پھر چانس دیا جائے، اس سے یہی لگتا ہے کہ صوبے میں مخلوط حکومت بنی تو قیادت پرویز خٹک کے پاس ہو گی۔ جے یو آئی چاہے گی تو اسے بھی حصہ مل جائے گا، عام انتخابات کے وہ مناظر دیکھنے والے ہونگے جب صوبوں میں ایک دوسرے کی اپوزیشن کرنے والی جماعتیں وفاق میں کابینہ کی ایک ہی میز پر بیٹھی ہوں گی۔ صدر کے عہدے کیلئے آصف زرداری بھی امیدوار ہیں اور مولانا فضل الرحمن بھی، مولانا کو راضی رکھنے کیلئے انہیں ایوان صدر کا مکین بنایا جا سکتا ہے، یہ سب تجزیاتی اندازے ہیں، یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا کہ کون کیا بنے گا؟ لیکن یہ طے ہے کہ اس قسم کے تجربات کے پہلے کبھی مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے نہ ہی آئندہ حاصل کیے جا سکتے ہیں، اگلی منتخب حکومت کو معاشی اور خارجہ امور پر آزادانہ فیصلے کرنے کا اختیار نہ دیا گیا تو ملک و قوم کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئے گی، عدلیہ میں موجود ہائبرڈ نظام کی باقیات کو بھی اصل کام پر لگانا ہو گا۔ اب آخر میں یہ بھی جان لیں کہ آٹھ فروری کو انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تین رکاوٹیں بتائی جا رہی ہیں، ایک تو یہ کہ چار لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کے باوجود کے پی کے میں اب بھی آٹھ لاکھ جعلی ووٹر موجود ہیں، یہ سب افغان مہاجرین ہی ہیں جنہیں پی ٹی آئی کے دور میں منظم منصوبے کے تحت ووٹر رجسٹرڈ کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ ان تمام کو ووٹر لسٹوں سے خارج کرنے تک منصفانہ انتخابات ممکن نہیں، دوسرا اہم اشارہ یہ ہے کہ اسلام آباد کے مخصوص مقام پر ابھی تک الیکشن سیل قائم نہیں کیا گیا۔ تیسری رکاوٹ امن و امان کی خراب صورتحال کو کہا جا رہا ہے، وجہ چاہے کچھ بھی ہو عام انتخابات کی تاریخ آٹھ فروری سے آگے گئی تو اس سے کوئی اچھا پیغام نہیں جائے گا۔
یہ سطور تحریر کیے جانے تک لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی ایک درخواست کو جواز بنا کر انتخابی عمل روکنے کا حکم جاری کر دیا ہے، بظاہر پی ٹی آئی اسے اپنی جیت سمجھ رہی ہے، حقیقت میں اس سارے کھیل میں بھی اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلے گی بلکہ مشکلات میں اضافہ ہی ہو گا۔ اس تمام کے باوجود الیکشن کمیشن نے 17 دسمبر کو الیکشن شیڈول جاری کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات