تاریخ تو اپنا فیصلہ دے چکی کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ایک ’’عدالتی قتل‘‘ تھا۔ اس کے بدترین مخالف بھی یہ اعتراف کر چکے کے پھانسی کی حمایت غلطی تھی۔ اب تاریخ اپنے مطلب کی نہیں لکھی جا سکتی ویسے یہ کام ہم اکثر کرتے ہیں۔ گواہی بھی اندر سے آئی کہ فیصلہ دباؤ میں دیا گیا اب عدلیہ کا امتحان ہے کہ اگر ایسا ہی تھا تو پھر قاتل کو قاتل تو کہنا پڑے گا۔
44 سال گزر گئے اب نہ بھٹو زندہ ہےنہ جنرل ضیاءنہ ہی وہ متنازع عدلیہ اورنہ ہی انصاف کے نام پر ناانصافی کرنے والے ،بس اتنا ضرور ہے کہ شاید عدالتی قتل کو آج کی سپریم کورٹ کی سندچاہیے۔ اس کے بعد بھی آنیوالے وزرائے اعظم کے ساتھ انصاف نہیں ہوا نہ ہی سپریم کورٹ بدلی ،نظریہ ضرورت آج بھی زندہ ہے البتہ موجودہ اعلیٰ عدلیہ سے کچھ امید سی ہے کہ شاید سمت درست کر لی جائے۔ کل کیا ہو گا کس کو خبر خاموش رہو۔ بھٹوکے عدالتی قتل کی یہ کہانی ویسے تو 5جولائی 1977 سے شروع ہوتی ہے جب 90روز میں انتخابات کا وعدہ کیا پھر اندازہ ہوا کہ اس کی مقبولیت اقتدار سے غیر آئینی انداز میں بٹھائے جانے کے بعد عروج پر پہنچ گئی ہے اور الیکشن ہوئے تو پی پی پی دوبارہ برسرِ اقتدار آ جائے گی ،لہٰذا نہ صرف الیکشن ملتوی ہوئے بلکہ اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ اسکا زندہ رہنا ان کی موت ہے۔ اسی لیے یہ اصطلاح سامنے آئی کہ ’’قبر ایک ہے اور افراد دو‘‘ اور یوں اس کو راستے سے ہٹانے کی سازش تیار کی گئی۔ ظاہر ہے فوجی عدالت سے سزا دلوائی جاتی تو غصہ ایک جانب ہوتا لہٰذا من پسند ججوں کی ٹیم کی تلاش شروع ہوئی اور یہ کام بڑی باریک بینی سے ہوا جس میں بظاہر ہماری وکلا تاریخ کے سب سے متنازع وکیل اور اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ کا نام نمایا ںہے۔ مگر لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس مولوی مشتاق احمد بھی پیش پیش تھے اور یہی دو افراد تھے جنہوں نے من پسند ججز نہ ملنے کی صورت میں ایک ایڈہاک جج جسٹس نسیم حسن شاہ کو 9ویں جج کے طور پر بینچ میں بٹھانے کا پلان تیار کیا جس میں نظر آتا ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس انوار الحق کی مرضی اوررضا مندی بھی کسی حد تک شامل تھی۔
سلام ہے سنیئر صحافی اور ہمارے ساتھی افتخار احمد کو جنہوں نے پہلی بار اس سازش کو بے نقاب کیا ،نسیم حسن شاہ سے ٹی وی پر انٹریو میں اعتراف کروا کر کہ فیصلہ دباؤ میں دیا ۔ بعد میں جج نے اپنی کتاب میں کچھ ’’اگر مگر‘‘بھی شامل کیے مگر یہ واقعہ اس عدالتی قتل کو ثابت کرنے کیلئے ہی کافی ہے کہ اس اہم ترین مقدمہ میں کیوں بٹھایا گیا تھا۔
وہ خود لکھتے ہیں ’’یہ اپریل 1978ءکی ایک شام کا ذکر ہے میں کسی تقریب میں شرکت کیلئے تیار ہو رہا تھا کہ اطلاع ملی، جسٹس مولوی مشتاق اور شریف الدین پیر زادہ گیسٹ روم میں میرا انتظار کر رہے ہیں ۔ روایتی علیک سلیک کے بعد میں نے آنے کا مقصد جاننے کی کوشش کی تو بولے ’’ہم جانتے ہیں کہ آپ اس بینچ کا حصہ نہیں جو بھٹو کی پھانسی کے خلاف اپیل سنے گا۔ میں نے کہا میں ایک ایڈہاک جج ہوں اس اہم مقدمہ کا حصہ کیسے بن سکتا ہوں، دوسرے آپ لوگ تو اس کیس میں پارٹی ہیں آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا‘‘۔ کیا کیا کھیل کھیلا گیا اس ملک میں انصاف کے نام پر جسٹس منیر سے لے کر آج تک کی سویلینز کو سزا ملی اور آمروں کو جزا۔
جسٹس مشتاق نفرت کی حد تک بھٹو سے ناراض تھے لہٰذا رویاتی اور اخلاقی ضابطہ کے برخلاف Not Before me کہنے کے بجائے انہوں نے خود اس 1975کی FIR کو سیشن کورٹ میں جانے سے پہلے ہی خود اپنی سربراہی میں اپنی پسند کا بینچ بنوایا اور بھٹو کو پھانسی کی سزا دے دی۔ اس سماعت کا احوال سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ محترم جج کا رویہ کتنا ہتک آمیز تھا بھٹو کے ساتھ۔
بہرحال سپریم کورٹ نے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تو جسٹس نسیم حسن شاہ کو نویں جج کے طور پر شامل کر لیا گیا۔ اپیل کی سماعت شروع ہوئی تو کچھ عرصہ بعد ایک رکن پشاور کے جسٹس قیصر محمود جن کے بارے میں خود جسٹس شاہ لکھتے ہیں، وہ بھٹو کی اپیل منظور کرنے کے حق میں تھے65سال کی عمر ہونے پر ریٹائر ہو گئے ۔ اب بینچ 8رکنی رہ گیا مگر توڑا نہیں گیا۔ پھر ایک اور جج جنکے بارے میں بھی یہی خیال تھا جسٹس وحید الدین احمد، وہ بیمار پڑ گئے اور بینچ سے الگ ہو گئے۔ اب بھی بینچ نہ توڑا گیا، سماعت 7ججوں نے کی اور نسیم حسن شاہ ساتویں جج تھے۔ اب تین ججوں چیف جسٹس انوار الحق، جسٹس کرم علی چوہان اور جسٹس ایم اکرام جن تینوں کا تعلق اتفاق سے پنجاب سے تھا انہوں نے اپیل مسترد کرنے کا فیصلہ لکھا جبکہ جسٹس در اب پٹیل اور جسٹس ایم حلیم کا تعلق سندھ سے اور جسٹس صفدر شاہ کا تعلق پشاور سے تھا ۔ان تینوں نے اپیل منظور کرنے کےحق میں فیصلہ دیا۔ اب گیند پھر پنجاب کے کورٹ میں آ گئی اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک اور انداز میں جسٹس منیر کی یاد تازہ کر دی۔ اس وقت بھی سندھ کے فیڈرل کورٹ نے قومی اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جسے نظریہ ضرورت کے تحت بدل دیا گیا۔ بھٹو کیس میں دباؤ نسیم حسن شاہ پر ڈالا گیااور انہوں نے پھانسی کی اپیل مسترد کر دی اور یوں عجب عدالت کی غضب کہانی ختم ہوئی۔
کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا ،کیا لوگو!
بھٹو کو پھانسی دینا تھی سو دے دی گئی اسے تاریخ نے زندہ رکھنا تھا تو اس نے پھانسی کو ’’عدالتی قتل‘‘ قرار دیا۔ آج کی عدلیہ کیا فیصلہ دیتی ہے اس کا انتظار رہے گا۔ بیشتر کردار اب اس دنیا میں نہیں مگر ان 44 برسوں نے پاکستان کی سیاست کو اور ریاست کو بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے،آج سب مانتے ہیں کہ وہ ایک دلیر لیڈر تھا امریکہ جیسی سپر پاور کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر گفتگو کرنے والا۔ امریکہ نے اسے ’’عبرت‘‘ کا نشان بنانے کی دھمکی دی مگر اس نے ایٹمی پروگرام ترک کرنے سے انکار کر دیا۔ تیسری دنیا غیر جانبدار تحریک اور اسلامی و عرب دنیا کو متحد اور طاقت ور بنانے میں اہم کردار ادا کرنیوالے کیساتھ ایک آمر نے طاقت کے نشے میں وہی کیا جو اسے کرنا چاہے تھا۔
بہت بات ہوگئی۔ عدلیہ کے کرداروں کی، آمر کے کردار کی مگر کچھ کردار مبینہ طور پر اس کی اپنی پارٹی کے بھی تھے ،یہی مختصر سی کہانی ہے ایک وزیراعظم کے ’’عدالتی قتل‘‘ کی۔ آج سب کو 4؍اپریل یاد ہے مگر کتنوں کو 17؍اگست یاد ہے۔ تاریخ کے اپنے فیصلے ہوتےہیں عدلیہ کے اپنے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ