برملا (نصرت جاوید )
طبیعت غالب کی طرح اس طرف مائل نہیں ہوتی۔حقیقت مگر یہ ہے کہ سازشی تھیوری ہی بکتی ہے۔ مجھ ایسے لوگ بے وقوف ہیں جنہیں استادوں نے خبر دینے سے قبل اس سے براہِ راست متعلق کم از کم تین افراد سے تصدیق تلاش کرنے کی مشقت میں مبتلا کیا۔ خبر کے سو فیصد درست ہونے کے اعتماد کے باوجود مصر رہے کہ اسے بیان کرتے ہوئے زبان وبیان امکان کی فضا برقرار رکھیں کیونکہ آخری لمحات میں برسوں سے طے شدہ پلان بھی بدل دئے جاتے ہیں۔
خبر نویسی کے حوالے سے اپنی اذیت بھری زندگی کی بابت افسردگی محسوس کرنے کے باوجود احساس مگر یہ بھی رہتا ہے کہ خبر دینا ہی میرے رزق کا واحد وسیلہ رہا ہے اور میرے زمانے میں صحافت کے معیار مختلف تھے۔ صحافت نام تھا جس کا …. وہ عرصہ ہوا اب دنیا سے رخصت ہوچکی ہے۔زمانہ سوشل میڈیا کاہے۔جس کے ہاتھ میں موبائل فون وہ ہی صحافی اور موبائل فون والی صحافت بتارہی ہے کہ پاک آرمی کے چیف ان دنوں بہت اہم دورے پر امریکہ میں موجود ہیں۔
ان کے دورہ امریکہ کا ایجنڈا کیا ہے؟ یہ جاننے کے لئے پرانے دور کے صحافی کو آئی ایس پی آر سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔مذکورہ ادارہ اس تناظر میں ایک پریس ریلیز مگر پہلے ہی جاری کرچکا ہے۔وہ پریس ریلیز مختصر مگر جامع ہے اور کسی سنسنی خیز نتیجے کی امید نہیں دلارہی۔ آرمی چیف کے دورہ امریکہ کو تقریبا معمول ہی بتایا ہے۔
سوشل میڈیا پر چھائے باخبر افراد کا ایک گروہ البتہ تواتر سے اصرار کئے جارہا ہے کہ مذکورہ دورے کے دوران آرمی چیف اس امر کا جائزہ لیں گے کہ واشنگٹن پاکستان میں 8فروری 2024ء کے دن انتخابات منعقد ہونے کو کتنا لازمی تصور کرتا ہے۔ فرض کیا وہاں اس ضمن میں خاطر خواہ گرم جوشی نظر نہ آئی تو پاکستان میں انتخابات کو چند مہینوں تک موخر کرنے کی راہ نکالی جاسکتی ہے۔انتخابات کے بغیر نگران حکومتوں کے چلائے ان مہینوں میں پاکستانی معیشت کو مزید سنبھالنے اور مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ توجہ زراعت کے شعبے پر دی جائے گی جہاں بھاری بھر کم سرمایہ کاری کی بدولت پاکستان وسیع تر رقبوں میں جدید ترین آلات و ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے غذائی اعتبار سے خودکفیل ہونے کے علاوہ زرعی اجناس برآمد کرنے والا اہم ترین ملک بھی بن سکتا ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری اور زرعی شعبے میں پیداوار بڑھانے کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ملاپ سے پاکستان کی قسمت چمکانے کے جو امکانات ہیں عقل کا کوئی اندھا ہی اس سے غافل ہوسکتا ہے۔حکومتِ امریکہ جی ہاں میں دہرارہا ہوں حکومتِ امریکہ مگر اس شعبے میں متحرک نہیں ہے۔امریکہ میں تقریبا دو صدیوں سے زرعی اجناس کی اجارہ دار چند کمپنیاں کام کررہی ہیں۔ بنجرزمین آباد کرنے میں مدد دینے والی ٹیکنالوجی کی دریافت میں وہ سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ایسے بیج بھی تیار کرواتی ہیں جو فی ایکڑپیداوار میں معجزہ نما اضافے کا باعث ہوتے ہیں۔یہ سارا دھندا مگر سرکاری نہیں نجی طورپر چلایا جاتا ہے۔
آپ نے اکثر بنانا ری پبلک کا ذکر سن رکھا ہوگا۔ یہ درحقیقت لاطینی امریکہ کے ان ممالک کے لئے استعمال ہوتا ہے جہاں امریکی سرمایہ کاری سے وسیع وعریض رقبوں پر آج سے دو صدی قبل کیلا اگایا گیا تھا۔کیلے کی بے تحاشہ پیداوار سے ان ممالک کے غریب کسانوں کو خاص منافع نہیں ملتا تھا۔وہ زندہ رہنے کے لئے دیگر اجناس کی جانب توجہ دینا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش دبانے کے لئے مگر وہاں کی حکومتیں فوجی آمریتوں کے ذریعے اپنے ممالک کو کیلے کی پیداوار تک ہی محدود رکھتی رہیں۔ بنانا ری پبلک پر کامل انحصار نے بالآخر ان ہی ممالک کے کسانوں کو بغاوتوں پر مجبور کیا۔مسلح جدوجہد کے ذریعے وہ آزاد علاقے متعارف کروانا شروع ہوگئے جہاں کوکین جیسی نشہ آور اجناس کی کاشت سے بے پناہ منافع کی گنجائش نکالی گئی اور جو منافع حاصل ہوا اس کے ذریعے آزاد علاقوں میں منشیات پیداکرنے والوں نے ریاست کے مقابلے میں جدید ترین اور انتہائی مہلک ہتھیار بھی استعمال کرناشروع کردئے۔
لاطینی امریکہ کی بنانا ری پبلک آج کے کالم کا مگر موضوع نہیں ہے۔جان کی امان پاتے ہوئے سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں کو یاد فقط یہ دلانا ہے کہ آج کے امریکہ میں زرعی اجناس سے متعلق کمپنیاں پاکستان جیسے ممالک میں وسیع تر رقبے لیز وغیرہ پر لینے میں دلچسپی لینا چھوڑچکی ہیں۔اب آپ کو گھروں تک زرعی اور خوراک کے لئے درکار دیگر اجناس پہنچانے والی کمپنیاں متعارف ہوچکی ہیں۔ وہ کسانوں کو جدیدٹیکنالوجی اور بیج استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہیں اور ان کی پیداوار خرید کر اسے مارکیٹ کرتی ہیں۔ براہِ راست کاشت کاری کے میدان میں نہیں ا ترتیں۔فرض کریں کہ امریکہ میں چند کمپنیاں اب بھی پاکستان جیسے ملک میں وسیع تر زرعی رقبوں کی تلاش میں ہیں تو ایسے رقبوں کی مارکیٹنگ کے لئے ہمارے آرمی چیف کو وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ مطلوبہ ماریکٹنگ پروفیشنل انداز میں دیگر کئی حوالوں سے بآسانی کی جاسکتی ہے۔
آرمی چیف کا دورئہ امریکہ بنیادی طورپر دفاعی امور پر ہی فوکس رہے گا۔ اس تناظر میں ہمارے لئے اہم ترین مسئلہ افغانستان ہے۔امریکی افواج وہاں سے رخصت ہوچکی ہیں۔ ان کا انخلاء مگر ہمارے لئے خیر کی خبر ثابت نہیں ہورہا۔ افغان طالبان کے پاکستانی ہم عقیدہ انتہا پسند وہاں بیٹھے ہمارے ریاستی نظام کو نیچا دکھانے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔قومی سلامتی پر نگاہ رکھنے والے پاکستانی ادارے مصر ہیں کہ افغانستان میں پناہ گزین مذہبی انتہا پسند ہمارے ہاں دہشت گرد کارروائیوں کے لئے عموما غیرقانونی طورپر پاکستان میں گھس آئے افغان افراد کو اپنے عزائم کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اسی باعث چند ہفتے قبل نہایت سوچ بچار کے بعد پاکستان کے تمام ریاستی اور سیاسی اداروں نے باہم مل کر فیصلہ کرلیا کہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے پناہ گزین افغان افراد پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔پاک افغان سرحد پر انسانی آمدورفت ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ریکارڈ پر لائی جائے۔ سرحد کو سرحد ہی شمار کیا جائے۔
پاکستان میں باقاعدہ دستاویزات کے بغیر مقیم ہزاروں افغان امریکی افواج کے انخلاکے بعد طالبان کے خوف سے بھاگ کر ہمارے ہاں آگئے تھے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا وعدہ تھا کہ وہ انہیں جلد از جلد اپنے ہاں آباد کرنے کی راہ نکالیں گے۔فروری 2022میں لیکن روس یوکرین پر حملہ آور ہوگیا۔ طالبان سے جند بچاکر پاکستان آئے افغانوں کو اپنے ہاں بسانے کے بجائے امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین سے آئے مہاجرین کو پناہ فراہم کرنے میں مصروف ہوگئے۔ پاکستان سے اب تقاضہ یہ ہورہا ہے کہ ہم ان افراد کو ان کے کنبوں سمیت اپنے ہاں طویل عرصے تک قیام کو رضامند ہوجائیں گے۔ اپنے کنبوں کو جنہیں امریکہ اپنے بندے ٹھہراتا ہے ہمارے ریاستی ادارے شک شبے کی نگاہ سے دیکھنے کو مجبور ہیں۔ انہیں ایسی راہ نکالنا ہوگی کہ ان کنبوں کا جامع ریکارڈ ہمارے ہاں موجود ہو۔ اس کے علاوہ اہم ترین یہ بھی ہے کہ وہ ہماری معیشت پر بوجھ نہ بنیں۔ وہ جن کے بندے ہیں وہ ہی ان کی معاشی اعتبار سے دیکھ بھال کریں۔
امریکہ کے اپنے ٹھہرائے بندوں کے پاکستان میں قیام کے عوض ہمیں یہ گارنٹی بھی حاصل کرنا ہوگی کہ طالبان کے خوف سے ہمارے ہاں حال ہی میں پناہ کے لئے آئے افراد سیاسی اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث نہ ہوں۔افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے لئے سلامتی کے تناظر میں ابھرے سوالات کے میں چند ہی پہلو بیان کرپایا ہوں جن کے بارے میں امریکی وزارت دفاع کوہم نوا بنانا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ وسیع تر تناظر میں اسرائیل کی غزہ کے خلاف مسلسل جارحیت کے سبب مشرق وسطی کے ملکوں میں ابھرتی تشویش بھی یقینا دورہ امریکہ میں زیرغور آئے گی۔ 8فروری 2024کے روز انتخاب کا انعقاد وسیع تر تناظر میں اس قابل ہی نہیں کہ ہمارے آرمی چیف کی امریکی ہم عصروں کے مابین گفتگو کے دوران زیر بحث لایا جائے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت