استحکام پاکستان پارٹی کے چیئرمین جہانگیر ترین کی مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور بالخصوص شہباز شریف سے ملاقات نے میڈیا میں خبروں کا ایک شور برپا کر دیا ہے۔
ہر طرف دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بھی اس سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بہت اعتراض کیا ہے بلکہ یہ تک کہا ہے کہ پنجاب میں لیول پلیئنگ فیلڈ کو مزید خراب کیا جا رہا ہے۔
میری اطلاعات کے مطابق جہانگیر ترین اور عون چوہدری، شہباز شریف کے پاس کسی وسیع پیمانے پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے نہیں گئے تھے بلکہ وہ دونوں صرف اپنی سیٹوں پر ایڈ جسٹمنٹ کے لیے گئے تھے۔
انھوں نے ابتدائی طور پر صرف دو سیٹوں پر ن لیگ کو اپنا امیدوار نہ دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ جہانگیر ترین چاہتے ہیں کہ لودھراں میں ان کی آبائی سیٹ پر ن لیگ کوئی امیدوار نہ دے۔ اسی طرح عون چوہدری چاہتے ہیں کہ لاہورمیں ان کے اور ان کے بھائی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اپنا امیدوار نہ دے۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا پہلے ان سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کی کوئی بات تھی۔
میری اطلاعات کے مطابق سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر پہلے کوئی انڈر اسٹینڈنگ نہیں تھی۔ لودھراں میںکانجو اور بلوچ سیاسی برتری کا تنازعہ چلا آرہا تھا، اس کا جہانگیر ترین کو سیاسی فائدہ ہوتا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کانجواور بلوچ امیدواروں کے باہمی مقابلے میں وہ سیٹ نکال لیں گے۔ لیکن خلاف توقع لودھراں میں کانجو اور بلوچ اتحاد ہوگیا ہے۔
یوں اس نشست پر جہانگیر ترین کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ہیں ، اس لیے انھیں مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہو گئی ہے۔ دوسری طرف عون چوہدری کو پہلے دن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت تھی، وہ موقع کی تلاش میں تھے۔ وہ استحکام پاکستان پارٹی کی وجہ سے مجبور تھے۔ وہ نواز شریف کو لینے ائیر پورٹ بھی گئے تھے۔انھیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پہلے دن سے ضرورت تھی۔ لہذا انھوں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔
جہانگیر ترین کی اس ملاقات کے بعد استحکام پاکستان پارٹی میں بھی ایک ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ علیم خان بھی لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں، وہ استحکام پاکستان پارٹی کے صدر بھی ہیں۔ انھوں نے کسی قسم کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے انکار کر دیا ہے ۔
شاید انھیں اس ملاقات کے بارے میں علم ہی نہیں تھا تاہم بعدازاں علیم خان اور جہانگیر ترین کی ملاقات ہو گئی اور اختلافات کا تاثر ختم ہوگیا ہے۔اس کے بعد استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیٹ ایڈ جسٹمنٹ پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں، یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ 44ناموں کی لسٹ بھی تیار ہو گئی ہے اور استحکام پاکستان پارٹی ان سیٹوں پر مسلم لیگ(ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟مجھے تو ابتدائی طور پر دو سیٹوں پر بھی ایڈجسٹمنٹ ممکن نظر نہیں آرہی، 44سیٹوں پر تو مکمل طورپر ناممکن ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی مفاہمتی فارمولہ اتنی بڑی تعداد میں سیٹوں پرایڈ جسٹمنٹ نہیں کرا سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) تواس پر بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوگی۔ بہتر تو یہی تھا کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا چیپٹر کھولا ہی نہ جاتا۔ پہلے دن جو موقف لیا گیا تھا کہ استحکام پاکستان پارٹی ن لیگ کے خلاف الیکشن لڑے گی، اسی موقف کے ساتھ الیکشن میں جایا جاتا، استحکام پاکستان پارٹی کو تحریک انصاف کی جگہ لینی ہے۔
انھیں ن لیگ کے مخالف جگہ لینی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ فوری نتائج نہیں آرہے تھے۔ لیکن سیاست صبر کا کھیل تھا۔ الیکشن کے قریب جا کر صورتحال بدل بھی سکتی ہے۔ اگر اس الیکشن میں وہ نتائج سامنے نہ بھی آتے تو اگلے الیکشن کی تیاری کی جا سکتی تھی۔
نئی سیاسی جماعتیں راتوں رات نتائج نہیں دے سکتیں۔ جیسے جیسے تحریک انصاف کمزور سے کمزور ہوتی ویسے ویسے ان کے لیے جگہ بنتی۔ تا ہم مجھے لگتا ہے کہ جہانگیر ترین لمبی اننگ کھیلنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔
مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنا ہی سیاست ہے۔ میرا خیال ہے کہ ن لیگ کی قیادت سے ملاقات ایک سیاسی غلطی ہے، ن لیگ سے ملا بھی کچھ نہیں اور سیاسی ساکھ پر بھی سوالات پیدا ہوئے ہیں ۔ استحکام پاکستان پارٹی نے تحریک انصاف کا متبادل بننے کا موقع بھی ضایع کر دیا ہے۔ ملاقات سے پہلے یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ اس کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے ۔
پنجاب میں سب ہی مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ن لیگ پیپلز پارٹی کو سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کی پیشکش کرے تو کیا پیپلزپارٹی نہیں مانے گی؟ بلاول فوری طور پر پہنچ جائیں گے۔ ن لیگ پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کر کے ایک سیاسی قیمت چکا رہی ہے تو استحکام پاکستان پارٹی سے کیسے کریں گے، ایسا ممکن نہیں ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس