گھر میں سکول …تحریر افشین شہریار


کچھ عرصے سے ہوم سکولنگ کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔کچھ جاننے والوں نے بھی اس سلسلے میں اپنے بچوں کو کامیابی سے آگے بڑھایا اور اب سوشل میڈیا پر بھی اس پر بات ہو رہی ہے اور کچھ ایسے پلیٹ فارم بھی ہیں جن پر بچوں کو سکول کی تعلیم دی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں اس
تبدیلی پر نظر ڈالنے سے سوچ کے در وا ہوتے ہیں کہ یہ اچھی تبدیلی ہے جس سے بہتری آنے کی امید ہے۔
.
ایک کرونا کی وجہ سے بھی پتہ چلا ہے کہ گھر بیٹھ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے کیونکہ بہت سے سکولوں نے آن لاٸن پڑھایا۔

دوسرے یہ کہ نٸی نسل کی اخلاقیات کی پریشانی بھی والدین کو فکر میں مبتلا کر رہی ہے۔اس اخلاقی گراوٹ کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا

یاد رہے کہ میں اس طبقے کی بات کر رہی ہوں جن کی ماٸیں کچھ پڑھی لکھی ہیں اور اپنے بچوں کی تعلیم کو سنبھال سکتی ہیں۔۔
ایسے والدین کے لیٸے یہ سہولت تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
ہم سب پریشان ہیں کہ سکولوں میں بھیجنے کے باوجود شخصیت سازی نہیں ہو سکی مزید بگاڑ سہنے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔دوسرے معاشی معاملات کی وجہ سے سکولوں کی تعلیم کو بوجھ اٹھانا بھی والدین کے لیٸے گھمبیر معاملہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پیٹرول وغیرہ کی آسمان سے چھوتی قیمتوں نے مساٸل اور بڑھا دیٸے۔

سب سے اہم بات یہ کہ انگریزی کے تسلط نے بھی قوم کے بچوں کو عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے ۔بعض سکولوں میں تو یہ حال ہے کہ بچوں کو قومی زبان بولنے پر نہ صرف شرمندہ کیا جاتا ہے بلکہ ان سے جرمانہ بھی لیا جاتا ہے
۔اس سے کسی کو انکار نہیں کہ انگریزی آج کل کی ضرورت ہے لیکن جبر کسی طرح قابل قبول نہیں، نہ ہی یہ قبول کیا جا سکتا ہے کہ اپنی زبان کاٹ کر توقع کی جاٸے کہ سوچنے والے اذہان پیدا ہوں۔

گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہااں سے آٸے صدا لاالہ الا اللہ

ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور تبدیلیاں کاٸنات کا مستقل حصہ ہے۔چنانچہ تبدیلی، بہتری کی امید ہے ۔

اسے خوش آمدید کہیں اور اپنے بچوں کو اپنے زیر سایہ تربیت دیں اور تعلیم کا اہتمام کریں تاکہ آنے والا وقت آپ کا ہو۔ضروری ہے کہ ماٶں کی گھریلو معاملات میں مدد کی جاٸے تاکہ ماٸیں اپنی صلاحیتیں مزید نکھار سکیں اور اس طرح نہ صرف خود معاشرے کی مثبت اور مضبوط اکاٸی بنیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی صحیح سمت میں لے کر چلیں