احمد سلیم سے دوستی فرنٹیئر پوسٹ میں ہوئی۔ تیس سال پرانی دوستی تھی ۔ جو آج احمد سلیم کے اگلے جہاں کے سفر پر اختتام پزیر ہوئی۔ اللہ باری تعالیٰ کو شاید فرنٹیئر پوسٹ کے لوگ چاہیں شاید اگلے جہاں سے کوئی اخبار نکالنا ہے کل رحمت شاہ آفریدی صاحب انتقال فرما گئے اور آج احمد سلیم صاحب بھی اسی راستے پر چل دئیے, اسد جعفر کارٹونسٹ پہلے ہی وہاں موجود ہے اخبار کی تیاریاں لگتی ہیں، اگر فوٹوگرافر چاہیے ہوگا تو ہمیں بھی آواز آجائے گی۔
فرنٹیئر پوسٹ بلاشبہ اپنے وقت کا بہترین اخبار تھا اور اس کی ٹیم بھی انتہائی شاندار تھی۔ مجھے سب یاد ہے خالد احمد صاحب، جلیس حاضر ، راحت ڈار، انیتا، آمنہ شریف، عمران، خالد حسین، دلدار پرویز بھٹی مرحوم، سلمان شاھد، سلمان رشید، محسن، اکمل بھٹی ، مائد علی، بینا سرور، خالد بٹ، اور بہت سے لوگ ۔ ہم سب ساتھ تھے۔ بہت محنت سے کام کرتے تھے۔
میں جب نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے پاس ہوا تو واپس اسلام آباد آگیا اور پوسٹنگ بھی یھی کروالی۔
1993 تک احمد سلیم صاحب کی تقریباً 57 کتابیں پبلش ہوچکی تھیں۔
کچھ عرصہ رابطہ نہ رہا کیونکہ میں مارچ 1994 کو اسلام آباد۔ ٹرانسفر ہوکر واپس گھر آگیا تھا ۔ کچھ عرصہ نوکری کرنے کے بعد میں نے ایڈورٹائزنگ ایجنسی بنا لی۔ اور پھر سے احمد سلیم صاحب سے ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔
میں فیشن انڈسٹری اور اس کی خرافات میں کھویا ہوا تھا زندگی میں کوئی آجاتا اور کوئی چلا جاتا عجیب و غریب زندگی تھی۔
ایک شخص1996 میں میری زندگی میں آیا اور چھ ماہ بعد زندگی سے چلا گیا۔
میں کافی ڈسٹرب تھا۔ انہیں دنوں احمد سلیم میرے دفتر آئے اور مجھ سے اپنی کتابوں کے ٹائٹل بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
میں نے حامی بھر لی اور وہ ریفرنس کیلئے مجھ اپنی چند پرانی کتب دے گئے کہ ایسے ٹائٹل ہوتے ہیں میری کتب کے۔
ایک کتاب تھی “گھڑی دی ٹک ٹک” اور دوسری تھی “عمر دی چھت ھیٹاں”۔
میں ذھنی اذیت میں تھا اور عمر دی چھت ھیٹاں پڑھنی شروع کردی۔
پہلی نظم ہی میرے درد میری تکلیف سے مجھے نکال کر زندگی میں واپس لے ائی۔
پنجابی نظم مجھے آج بھی یاد ہے
عمر دی چھت ھیٹاں
بڑا دکھ ہوندا اے
مل کے وچھڑ جان دا
تے او وی اننی چھیتی
کہ مگروں یاداں وی
نہ جھوڑیاں جاسکن
پر ہور دکھ ہوندا اے
عمر دی چھت ھیٹاں
روز ملنا پر کدی نہ ملنا
اک دوجے نوں
یہ وہ نظم تھی جو میری تکلیف کا تریاق بنی اور میں زندگی میں لوٹ ایا۔
میں نے احمد سلیم صاحب کو فون کیا کہ میں آپ کی کتاب کا ٹائٹل بلامعاوضہ بناؤں گا۔
ہنستے ہوئے یار او کیوں
تو میں نے کہا میں ایک اذیت میں تھا پر آپکی ایک نظم مجھے اس اذیت سے نکال گئی۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے یار تو حکم کر میں کاغذ پر ہاتھ سے لکھ کر دستخطوں سے پیش کروں۔
میرا مسئلہ حل ہوگیا اس کی ضرورت نہیں۔
احمد سلیم صاحب کی بیشتر زندگی تنگدستی میں گزری لیکن بڑھاپے میں آکر وہ کافی بہتر حالات میں تھے۔جب انھوں نے ایس ڈی پی آئی کو جوائن کیا۔ پھر وہ کینسر جیسی موذی بیماری کا شکار ہوئے اللہ نے اس میں بھی صحت عطا کی۔
مجھے ان کی کی نظم
میرے کول نظماں ہی نئیں
ایک گڈی وی ہونی چاہیدی اے
اکثر رولا دیتی ہے۔
1993 میں وہ اکثر ویگن پر سفر کیا کرتے تھے۔
کل ان کا انتقال ہوگیا اللہ تعالیٰ ان کیلئے اگلے مراحل آسان فرمائے آمین