نوے کی دہائی میں جب ہم طالبعلم تھے تو سلمان رشدی نے گستاخیِ رسولۖ کا ارتکاب کرتے ہوئے لغویات پر مبنیSatanic Verses کے نام سے کتاب لکھنے کی ناپاک جسارت کی۔ وہ مغرب میں محفوظ بیٹھا تھا اور ہمارے احتجاج سے اسے نہیں بلکہ پاکستانیوں کو تکلیف پہنچ رہی تھی کیونکہ ہم مسلمان پاکستان کی سڑکیں بند کررہے تھے لیکن ہمیں کہا گیا کہ یہ احتجاج تقاضائے ایمان ہے۔ چنانچہ ہم بھی اپنا اصل کام یعنی پڑھائی چھوڑ کر سڑکوں پر احتجاج کرتے اور سلمان رشدی کے پتلے بنا کر جلاتے رہے۔ سلمان رشدی نے معذرت کی اور نہ کتاب کا مواد واپس لیا لیکن کچھ عرصہ بعد ہمیں احتجاج کا دوسرا موضوع مل گیا اور ہم سلمان رشدی کو بھول گئے۔ اسی طرح نوے ہی کی دہائی میں سوویت افواج افغانستان سے نکل گئیں اور جنرل حمید گل مرحوم جیسے جرنیلوں کے مشورے پر اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم نے اب مجاہدین کا رخ کشمیر کی طرف موڑنا ہے۔ چنانچہ ہم نے کشمیر کے حق میں پاکستانی سڑکوں پر احتجاج شروع کیا ۔ احتجاج کرتے رہے اور تب تک کرتے رہے جب تک نائن الیون نہیں ہوا ۔ نائن الیون کے بعد پاکستانی ریاست نے پالیسی بدل لی۔ اس نے کشمیری مجاہدین کی مدد بندکر دی۔ چنانچہ وہ بے آسرا رہ گئے اور معاملہ ہندوستان کی طرف سے کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے اور اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنانے پر منتج ہوا۔ اس پر ہم نے پھر پاکستانی سڑکوں پر احتجاج کیا۔ کچھ دن اپنی سیاست اور صحافت چمکائی اور پھر کشمیر کو بھول کر احتجاج کیلئے نئے موضوع کی تلاش میں لگ گئے۔
نوے ہی کی دہائی میں طالبان پاکستان کی مدد سے افغانستان کے حکمران بن گئے تو انہیں ہوش سے کام لینے کی نصیحت کرنے کی بجائے ہم پاپولر لائن لے کر ان کے ہر جائز اور ناجائز اقدام کو سپورٹ کرتے رہے ۔ ایک پاکستانی لیڈر نے باجوڑ میں جلسہ عام سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان میں بھی طالبان جیسا نظام لائیں گے۔ طالبان کے رویے نے افغانستان پر امریکہ کے یلغار کی راہ ہموار کی اور جب امریکہ کارروائی کیلئے پر تولنے لگا تو ہم نے ایک بار پھر سیاست چمکانے کیلئے احتجاج کا راستہ اپنایا ۔پاکستانی سڑکوں پر ملین مارچ ہونے لگے ۔ ان مارچوں سے امریکیوں کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن پاکستانی متاثر ہوتے رہے ۔ ہم پاکستانی تھے لیکن مذہبی لیڈروں نے جو سیاسی اتحاد بنایا اس کا نام دفاع افغانستان کونسل تھا ۔ ایک لیڈر عوام کے جذبات سے کھیلنے کیلئے یہاں تک کہہ گئے کہ اگر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہم بحیرہ عرب میں اس کے بحری بیڑے ڈبودیں گے ۔ پھر ہم نے دیکھا کہ اس امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے انہی بحری بیڑوں سے بمباریاں کرکے افغانستان کو تاراج اور طالبان کی حکومت کو ختم کیا لیکن دفاع افغانستان کا کوئی لیڈر وہاں جہاد کیلئے نہیں گیا بلکہ ان کے نعروں سے متاثر ہوکر سادہ لوح مولانا صوفی محمد ہزاروں پختونوں کو اپنے ساتھ افغانستان لے گئے ۔کافی عرصے سے احتجاج کیلئے مناسب بہانہ نہیں مل رہا تھا لیکن اللہ بھلا کرے قطر میں بیٹھے حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کا کہ انہوں نے اسرائیل میں کارروائی کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ ظالم اور جارح اسرائیل غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے لگا ۔ وہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی شہ پر غزہ پر حملہ آور ہوا اور مظالم کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔چنانچہ ہمیں احتجاج کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا اور اب کی بار چونکہ انتخابات سر پر ہیں اور چونکہ ہر پاکستانی کا دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے اس لئے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے مابین احتجاجی جلسوں کا ایک مقابلہ شروع ہوگیا ۔ جنگ غزہ میں ہورہی ہے اور ہم سڑکیں پاکستان کی بند کررہے ہیں اور ان سڑکوں کی بندش کی وجہ سے کئی مسلمان بیمار پاکستانی بروقت ہسپتال پہنچنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ جو پیسہ ہم جلسے جلوسوں اور کانفرنسوں پر خرچ کررہے ہیں وہ اگر ہم فلسطین بھیجیں تو شاید کسی فلسطینی کا جینا آسان ہوجائے لیکن چونکہ اس پر سیاست نہیں چمکتی اس لئے ہم صرف وہی کام کرتے ہیں جو پاکستانیوں کونظر آئے ۔وہ مسلمان نہیں جو فلسطینیوں کے غم کو اپنا غم اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ نہ سمجھے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہونا چاہے اور ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جہاں تک کیا ہونا چاہئے کا سوال ہے تو میرا بھی مطالبہ ہے کہ اسرائیل کا فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضہ ختم ہونا چاہئے لیکن جہاں تک ہم کیا کرسکتے ہیں کے سوال کا تعلق ہے تواس حوالے سے عرض یہ ہے کہ ہمارے احتجاجی مظاہروں کا فلسطینیوں کو کوئی فائدہ ہے نہ نقصان ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب میں کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔قطر، یواے ای، اردن اور لبنان وغیرہ میں مظاہرے نہیں ہوئے ۔وہاں کی حکومتوں کا موقف ، وہاں کے عوام کا بھی موقف سمجھا جاتا ہے اور جہاں تک پاکستان کی حکومت کا تعلق ہے تو ہمارا موقف عرب ممالک کے موقف سے زیادہ اسٹرانگ اور واضح ہے اور اس وقت اگر مولانا فضل الرحمان یا سراج الحق بھی وزیر اعظم ہوتے تو وہ بھی اس سے زیادہ کچھ نہ کرتے اور نہ کرسکتے تھے ۔ مظاہروں سے بات بنتی تو سب سے بڑے مظاہرے اسرائیل کے خلاف لندن اور امریکہ میں ہوئے ۔ ان مظاہروں کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا ۔ وہ خالص انسانی بنیادوں پر ہوئے لیکن ان کا بھی اسرائیل، امریکہ یا برطانیہ نے کوئی اثر نہیں لیا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ طاقتور ، صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے ۔ ہماری منافقت کا تو یہ حال ہے کہ گزشتہ سالوں کے دوران فلسطین کاز کو سب سے زیادہ نقصان عربوں اور ایران کی پراکسی وار سے پہنچا لیکن ہمارے مذہبی لیڈر ان میں سے کسی کے خلاف بیان نہیں دے سکتے ۔ یمن اور شام کی لڑائیوں میں بھی اسی طرح مسلمان بچے اور خواتین لقمہ اجل بنتے رہے لیکن وہاں چونکہ دونوں فریق مسلمان تھے ، اس لئے ان دونوں معاملات پر کسی مذہبی لیڈر نیمظاہروں کی کال نہیں دی ۔ مکرر عرض ہے کہ وہ مسلمان تو کیا انسان بھی کہلانے کا مستحق نہیں جس کی ہمدردیاں مظلوم فلسطینیوں کیساتھ نہ ہوں لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں تو میرے نزدیک فلسطین کی نسبت ہمارے مذہبی لیڈر افغانستان کے معاملے میں کچھ کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ پاکستانی ریاست کو طالبان کیساتھ کھڑا کرنے میں ان دینی رہنمائوں نے کردار ادا کیا تھا۔ اسلئے فلسطین کیلئے دعائوں پر اکتفا کرکے ان مذہبی لیڈروں کو افغانستان جانا چاہئے اورطالبان اور پاکستان کی حکومت کے مابین ثالثی کرنی چاہئے تاکہ پاکستانی اور افغان مسلمانوں کا مزید خون نہ بہے ۔ نہ اسرائیلی وزیراعظم پاکستانی مذہبی لیڈروں کے شاگرد ہیں اور نہ اسماعیل ہانیہ ۔ اس کے برعکس ہمارے مذہبی لیڈر دعوی کرتے رہے کہ افغان طالبان انکے شاگرد ہیں۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ اپنے شاگردوں اور پاکستانی ریاست کے مابین ثالث بن کر دکھائیں ۔ کیا ہونا چاہئے ،چھوڑ دیں بلکہ کیا ہوسکتا ہے ، اس پردھیان دیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ