گزشتہ ہفتے چیرمین نیب جنرل نذیر احمد بٹ نے پنجاب کے سینئر بیوروکریٹس کے ساتھ گفت وشنید کی ایک طویل نشست منعقد کی تا کہ انہیں قائل کیا جاسکے کہ عوام کے مفاد عامہ کے معاملات پراخراجات کی منظوری پر پوچھ گچھ نہیں ہوگی لہزا وہ ان کے فنڈز کو جاری کرنے کی منظوری سے اجتناب نہ کریں مگر افسران نے انہیں کھل کربتایا کہ ایسی یقین دہانیاں ماضی میں بھی نیب کے چیئرمین کراتے آئے ہیں مگر جب چاہے نیب افسران پر بیس بیس سال پرانی ادائیگیوں کے اوپر مقدمات کھڑے کر دیتے ہیں اور بعض افسران تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کئی کئی کیسز بھگت رہے ہیں ایک افسر نے بتایا کہ اسکو تمام انکوائریز میں بے گناہ قرار دینے کے باوجود کیس ختم نہیں کیا جا رہا ہے ہے اس کے پیچھے نیب کے نچلے درجے کے اہلکاروں کی بدنیتی ہوتی ہے اور بیچارے افسر کی نیب کیس کی وجہ سے پروموشن رک جاتی ہے ایک آفسر نے کہا کہ ماضی میں احد چیمہ اور کئی دوسرے افسران پر نیب نے جھوٹے مقدمات قائم کیے ان کو ہتھکڑیاں لگا کر میڈیا ٹرائل کیا گیا بے گناہ دو سے چار سال جیلوں میں بند رکھا گیا معاشرے او خاندان میں رسوا کیا گیا اب ایسے افسران کی اکثریت عدالتوں سے بری ہو گئی ہے مگر ان پر جھوٹے مقدمات قائم کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی جا رہی ہے تو پھر کیسے ایک سرکاری افسر عوام کی فلاح بہبود کے پراجیکٹس پر اخراجات کی منظوری دے وہ اگر خرچ کرے تو نیب کی انکوائری بھگتے اور مقدمات کا سامنا کرے اور کئریر کا بیڑا غرق کرے اور اگر وہ حکومتی پراجیکٹس پر پراگریس نہ دے تو حکومت اس کو نکما قرار دے کر او ایس ڈی بنا دیتی ہے اس پر نیب چیرمین نے کہا کہ وہ احد چیمہ کے بے گناہ ہونے پر نیب کی طرف سے معافی مانگنے ان کے گھر جائیں گے میرا اس پر یہ سوال ہے کہ کیا وہ صرف احد چیمہ سے ہی معافی مانگنے ان کے گھر جائیں گے یا وہ وسیم اجمل، فواد حسن فواد ڈاکٹر مجاہد کامران اور ڈاکٹر اکرم چوہدری جیسے معتبر قوم کے اساتذہ سے بھی معافی مانگنے ان کے گھر جائیں گے اور ان کے ساتھ جو سینکڑوں نچلے درجے کے سپورٹنگ سٹاف کو قید وبند میں رکھا گیا جو اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتے تھے کہ وکیل ہائر کر سکیں چونکہ وہ ان افسران کے ماتحت کلرک، اکاؤنٹنٹ یا ٹائپسٹ حتی کہ ڈسپچرز اور ڈرائیورز کو نیب نے جیلوں کی کال کوٹھریوں پھینک دیا آج اعلی ججز اور نیب افسران اور مالیاتی اداروں اور اتھارٹیز کے سربراہان کی تنخواہیں اور مراعات دو سے تین ملین عام ہیں مگر اس دور میں پنجاب کی کمپنیوں کے سربراہان بیوروکریٹس جن کی تنخواہیں 5 سے 12 لاکھ تھیی اور کابینہ کی منظوری سے طے ہوئیں تھیں تو دو تین سال کے بعد حکومت بدلنے پر ثاقب نثار صاحب سو موٹو نوٹس لے کر ان افسران سے نیب کو تنخواہیں واپس لینے کا آرڈر دینے ہیں اب بہت سے افسران ان پیسوں کو خرچ کر چکے تھے اور قرضے لے کر انہوں نے تنخواہوں کو مشکل سے واپس کیا ایسا انصاف پاکستان میں ہی ہوتا ہے 17 ویں سکییل کے نوارد نیب افسران کوگریڈ اکیس بائیس اور وائس چانسلرز سے پوچھ گجھ پر لگا دیا جاتا ہے ایسا ہی ایک بے شرم چھوکرا ڈاکٹر اکرم چوہدری جیسے مفسر قرآن اور انتہائی با عزت انسان کو منہ پر تھپڑ مارنے کی دھمکی دیتا ہے وہ ڈی جی جو نیب میں ڈیٹا انٹری کلرک سے ترقی کرتے ڈی جی نیب کے عہدے پر براجمان ہو کر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر افسران اور استاد وں اور کاروباری حضرات پر مقدمات قائم کرتا رہا ایچ ای سی نے دباؤ میں آکر آزاد کشمیر کی بدنام زمانہ اس کی ڈگری کو جائز قرار دیا اور اس کے سیشن کے بعد آج تک اس کی جاری ڈگریوں کو ایچ ای سی تسلیم نہیں کرتا ہے کیا معافی مانگنے سے وسیم اجمل کا ناقابل تلافی نقصان کا ازالہ ہو سکتا ہے والدہ جو اس کی گرفتاری کے وقت کوما میں تھیں اور بعد میں انتقال کر گئیں اس کے بیوی پچوں کو بار بار ڈرایا دھمکایا گیا محض اس لیے کہ وہ شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے سے انکاری تھا وہ اپنی سروس اور گریڈز سے چار سال پیچھے دھکیل دیا گیا وہ پروفیسر شاہد جسکی نیب کی حراست میں ھلاکت ہوئی او اس کی لاش کو ہتھکڑیاں لگا کر جیل سے باہر لایا گیا ان بے حس نیب ملازمین سے کون پوچھ گجھ کر رہا ہے بریگیڈیئر اسد مشرف دور میں سی ڈی اے کے ممبر تھے پندرہ سال بعد انہیں نیب نے ذلیل کرنا شروع کیا انہوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا بے گناہ ہونے کے باوجود نیب ان کو تنگ کرتا رہا انہوں نے ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر اپنی جان لے لی بہاولپور میں ایک پروفیسر صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد 18 سال تک ہر پندرہ دن کے بعد کراچی سے آکر نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے سامنے پیش ہوتے اور واپس بھیج دیے جاتے اور وہ اس اذیت کا شکار ہو کر ذہنی مریض بن کر زندگی کی قید سے آزاد ہو گئے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
جنرل صاحب احد چیمہ کے ساتھ سینکڑوں بے گناہ نیب عدالتوں سے بری ہو گئے ہیں ان میں سے اکثریت شدید ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں ان کے گھر تو کسی نے معافی تلافی کے لیے نہیں جانا ہے وہ کون سے نواز شریف اور شہباز ہیں کہ نیب پراسیکیوٹرز ان کے خلاف کیس میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لیں گے اور اب بھی ایسے کئی غریب اور ریٹائرڈ جونیئر سرکاری ملازمین کے اوپر نیب کے کیسز موجود ہیں مگر ان کے پاس نیب کے ساتھ تعلقات رکھنے والے وکلاء کو ہائر کرنے کے لیے فیسیں نہیں ہیں تو نہ وہ معافی کے طلب گار ہیں بس وہ مقدمات کا خاتمہ چاہتے ہیں اور وہ قیامت کے روز اس کائنات کے رب سے ظالموں کے خلاف انصاف لے لیں گے ہاں ایک خاتون بھی تھی جسکی عزت کا احتمال کا مبینہ الزام سابق چیئرمین نیب پر ہے وہ اور اسکا شوہر قیدو بند کی سزا بھگت کر عدالتوں سے رہا ہو گئے ہیں وہ بھی معافی نہیں انصاف کے طلب گار ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ بیورو کریسی میں اور عدلیہ میں ایسے ججز بھی تھے جن کے بچوں کو اربوں کی سلامیاں دی گئیں بزدار کے پرنسپل سیکرٹری کے بیٹے کی سلامیوں کی رقم بقول خواجہ آصف جب وہ تقریب میں پہنچے تو 76 کڑور سے تجاوز کر گئ تھیں لہذا اس ملک میں کرپٹ عناصر کا احتساب ضرور ہو مگر یکطرفہ سیاسی انجنیرنگ کے لیے احتساب کرنا غلط ہے میرا پختہ ایمان ہے کہ اس ملک کا حقیقی محسن اعظم وہی شخص، ادارے یا ججز اور با اختیار شخصیات ہو نگی جو دل میں خوف خدا اور رسول پاک کی انصاف پسندی کی سنت پر عمل پیرا ہو کر احتساب کا بے رحمانہ اور منصفانہ نظام قائم کر نے میں اپنا حصہ ڈالیں گے وگرنہ معافی کا کیا ہے وہ تو بھٹو کو بے گناہ پھانس دینے پر جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی ریٹائرمنٹ کے کئی برس بعد مانگی تھی نواز کے چہیتے سیف الرحمن نے بھی جیل میں آصف علی زرداری کے قدموں پر گر کر معافی مانگی تھی مگر وہ چارہ گر ی جو وقت گزرنے اور مظلوم کو تباہ کرنے کے بعد ہو اس کا کیا فائدہ لہذا تالیف قلب تبھی ممکن ہے کہ وہ احتساب افسران جہنون نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے ان کا احتساب بھی کیا جا ئے اور انہیں ملازمتوں سے فارغ کیا جائے اور سزائیں دی جائیں تا کہ وہ مستقبل میں کسی بے گناہ کے ساتھ زیادتی نہ کریں اور نہ ہی کسی نادیدہ ہاتھ کے اشارے پر افسران کو سیاست دانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کر ی
Load/Hide Comments