بلاول بھٹو زرداری تسلسل کے ساتھ بیان دے رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں انہیں وہ سہولیات اور تعاون نہیں مل رہا جوان کی مخالف جماعت پاکستان مسلم لیگ نون اور میاں نواز شریف کو مل رہا ھے ان کے بقول موجودہ نگران حکومت غیر جانبدار نہیں بلکہ پرو مسلم لیگی ھے،
دوسری طرف ایم کیو ایم ایک طرف تو مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد قائم کر کے اپنی ساکھ بحال کرنے میں مصروف ھے تو ساتھ ساتھ مسلسل پی پی پی کے خلاف بیان بازی کے ساتھ اس بات پر احتجاج بھی کررہی ھے کہ سندھ کی نگران حکومت غیر جانبدار نہیں بلکہ پی پی کی حامی اور معاون و مدد گار ھے،
اس وقت بظاہر اداروں کی فیورٹ جماعت اور اس کے سربراہ میاں نواز شریف چپ چاپ اپنے کام میں مصروف ہیں اور یہ تاثر مضبوط کرنے میں لگے ہیں کہ جیسے سب کچھ طے ہو چکا ھے اور اب بس ان کا بطور وزیراعظم حلف اٹھانا باقی ھے،
البتہ دوسرے درجے کی قیادت کی طرف سے ایم کیو ایم ہی کی طرز پر سندھ کے حوالے سے احتجاج بھی کر رہی ھے اور بطور خاص الیکشن کمشن کو نشانے پہ رکھا ہوا ھے کہ وہ سندھ میں پی پی کی من پسند حلقہ بندیاں ترتیب دے رہا ھے. جس کا تمام تر مقصد سندھ میں پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچانا ھے،
تازہ ترین خبر ھے کہ سندھ کی حد تک..
مسلم لیگ، جے یو آئی ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کا ایک اتحاد بھی تشکیل پا رہا ھے اور اس اتحاد کا موقف ھے کہ پی پی نے سندھ کو تباہ کردیا ہے اور ہم سب مل کر سندھ کو شاہراہ ترقی پہ ڈالیں گے..
یاد رھے کہ یہ سب وہ جماعتیں ہیں جو ماضی قریب میں سولہ ماہ تک ایک مخلوط حکومت کا حصہ تھیں اور ہر سیاسی جماعت کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک بااختیار وزارت اور اختیارات کے استعمال کے وسیع مواقع بھی حاصل تھے،
ان حالات مین حیرت ہوتی ھے کہ یہ کیسے ایک دوسرے کے خلاف منہ پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرلیتے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات لگا کر خود کو کیسے درست ثابت کرے کی کوشش کرتے ہیں،
کہتے ہیں ایک دفعہ ٹرین میں آمنے سامنے سیٹوں پہ بیٹھے دو افراد کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ ہورہا تھا، ایک بندے نے دوسرے سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں دوسرے نے بتایا کہ میں نے راولپنڈی جانا ھے ، اور آپ..؟
جی میں بھی پنڈی ہی جارہا ہوں
اوہ اچھا تو پنڈی میں آپ کہاں رہتے ہیں تو پہلے نے جواب دیا کہ میں بحریہ ٹاؤن فیز فور میں بنگلہ نمبر چارسوبیس کا مستقل رہائشی ھوں اور کراچی میں میرا پلائی وڈ کا بزنس ھے، جس پر دوسرا حیرت کے انداز میں بولا کہ میں نے بھی بحریہ ٹاؤن ہی جانا ھے اور میرے بنگلے کا نمبر بھی چار سوبیس ہی ھے،
ساتھ بیٹھے جو افراد بڑی توجہ سے اس مکالمے کو سن رھے تھے حیران اور پریشان بھی ہو رھے تھے… ان میں سے ایک نے جرآت کر کے پوچھ ہی لیا، کہ بھائی آپ دونوں اتنے قریب رہتے ہیں تو کیا آپ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے نہیں ہیں…
اس پر انہوں نے بتایا کہ دراصل ھم آپس میں باپ بیٹا ہیں ہم کراچی بھی ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور اب راولپنڈی بھی اپنے ہی گھر جارہے ہیں،
رہی بات ہمارے مکالمے کی تو یہ محض سفر کو خوشگوار انداز میں گزارنے کا ایک بہانا تھا اور بس،
ہمیں لگتا ھے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھی مستقبل کے حوالے سے اپنے اپنے حصوں کے بارے میں مکمل معلومات ہیں لیکن الیکشن تک کے بقیہ ایام میں خود کو مصروف رکھنے نیز عوام کو بیوقوف بناکر کام پہ لگائے رکھنے کے لیئے روزانہ کی بنیاد پر اس طرح کی بیان بازی سے کام لے رہے ہیں
اور عوام ہیں کہ ہر لمحہ ان سیاسی جماعتوں کے ان باھمی مکالموں کو اتنے انہماک سے سن رہے ہیں کہ جیسے کوئی بہت انہونی بات ہورہی ھے،
اللہ ہم پر اور اس ملک پر رحم فرمائے…