ایم کیو ایم کی مجوزہ آئینی ترمیم : تحریر مزمل سہروردی


ایم کیو ایم پاکستان نے پچیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ عوام اور ملک کی سیاسی جماعتوں کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اس بار ایم کیو ایم نے اپنی سیاسی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کی ہے۔

پہلے وہ انتخابات کے بعد اتحاد بناتے تھے۔ اس بار انھوں نے ایک آئینی مسودہ پیش کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ جو جو سیاسی جماعت ان کی اس آئینی ترمیم کی حمایت کرے گی وہ انتخابات میں اس کے ساتھ چلیں گے۔ انتخابات سے پہلے حمایت کی شرط ایک اچھی جمہوری اور سیاسی حکمت عملی ہے۔

پاکستان میں جہاں اٹھارویں ترمیم کے حق میں بہت بات کی جاتی ہے۔کچھ سیاسی جماعتیں اٹھارویں ترمیم کو زندگی موت کا مسئلہ بنا کر پیش کرتی ہیں۔ ان کے مطابق اٹھارویں ترمیم پاکستان کی بقا کی ضامن ہے، اگر دوبارہ مضبوط وفاق کی بات کی جائے تو چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی بڑھے گا۔ اس لیے صوبوں کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہی سیاسی جماعتیں اس حقیقت پر خاموش ہیں کہ ہم نے مضبوط وفاق کو تو کمزور کر لیا ہے۔

جس سے بہر حال پاکستان بھی کمزور ہوا ہے لیکن پہلے جس آمریت کی وفاق میں بات کی جاتی تھی اب وہی آمریتیں صوبوں میں قائم ہو گئی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے کئی سال بعد بھی صوبوں میں فعال بلدیاتی نظام قائم نہیں ہوسکا ہے۔ صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کو اختیار منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں۔

میں سمجھتا ہوں اٹھارویں ترمیم کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ہم نے صوبوں کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ اپنی مرضی سے مقامی حکومتوں کا نظام بنا سکتی ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کو مقامی اور بلدیاتی حکومتوں کے حوالے سے قانون سازی کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔

ایم کیو ایم کہہ رہی ہے کہ آئین پاکستان میں مقامی حکومتوں اور بلدیاتی حکومتوں کے ایک باب کا اضافہ کیا جائے تا کہ صوبوں کو فعال با اختیار مقامی حکومتوں پر پابند کیا جا سکے۔ ایم کیو ایم کہہ رہی ہے کہ جب تک آئین پاکستان خود مختار مقامی بلدیاتی اور شہری حکومتوں کا ضامن نہیں بنے گا۔

ملک میں کوئی فعال بلدیاتی مقامی اور شہری حکومتیں قائم نہیں ہو سکتیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ایم کیو ایم غلط بات کر رہی ہے۔ اگر آئین پاکستان نیشنل فنانس کمیشن کا ضامن ہے تو اب وقت آگیا ہے کہ آئین پاکستان صوبوں کو صوبائی فنانس کمیشن بنانے اور وفاق سے ملنے والے پیسے صوبائی فنانس کمیشن کے ذریعے خرچ کرنے کا پابند کیا جائے۔ یہ کیا انصاف ہے کہ وفاق تو نیشنل فنانس کمیشن کا پابند ہے لیکن صوبے کسی فنانس کمیشن کے پابند نہیں ہیں۔ اس کو جمہوریت کیسے کہا جا سکتا ہے۔

ایم کیو ایم کی مجوزہ آئینی ترمیم میں ایک شق یہ بھی ہے کہ اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے لیے ایک الگ شہری حکومت کا نظام ہوگا۔ ایم کیو ایم صرف کراچی کی بات نہیں کر رہی ہے۔ وہ تو کہہ رہی ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں بالخصوص دارالخلافوں کا ایک جیسا شہری حکومتوں کا نظام ہونا چاہیے۔

ایم کیو ایم اس آئینی ترمیم میں یہ بھی چاہتی ہے کہ شہری اور دیہی مقامی حکومتیں الگ الگ ہوں۔ یہ غلط ہے کہ آپ نے ایک شہری مقامی حکومت میں کئی دیہی علاقے شامل کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے الیکشن کمیشن کو پابند کیا جائے کہ مقامی حکومتوں کی حد بندیاں ایسے کرے کہ شہری اور دیہی علاقہ الگ الگ رکھے جائیں۔ ایم کیو ا یم کی اس مجوزہ ترمیم یہ بات بہت سخت ہے لیکن ٹھیک ہے کہ اگر مقامی اور شہری حکومتوں کی مدت عام انتخابات سے قبل ختم ہو گئی تو تب تک عام انتخابات نہیں ہو سکیں گے جب تک مقامی و شہری حکومتوں کے انتخابات نہ ہو جائیں۔

یہ درست ہے کہ کسی بھی صوبے میں مقامی و شہری حکومتوں کے انتخابات بروقت نہیں ہوتے۔ ہر صوبائی حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے مقامی و شہری حکومتوں کے انتخابات نہ ہی کروانے پڑیں۔ ہر مرتبہ عدلیہ کو ہی مداخلت کرنی پڑی ہے۔ ویسے تو میں اس حق میں ہوں کہ ملک میں صوبائی، قومی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات ایک ہی دن میں ہونے چاہیے۔ جب لوگ دو ووٹ ڈال سکتے ہیں تو تین چار ووٹ بھی ڈال سکتے ہیں۔

جب قومی اور صوبائی حکومت کے انتخابات ایک دن کی شرط آئین میں ہے تو سب انتخابات ایک ہی دن کروانے کی شرط بھی آئین میں ہونے میں کیا حرج ہے۔ میری رائے میں ایک دن کروانے کی شق زیادہ بہتر رہے گی۔

ایم کیو ایم اس آئینی ترمیم میں یہ بھی چاہتی ہے وفاق صوبوں کو محاصل سے جو حصہ دیتا ہے۔ اس میں آئین میں ایسی ترمیم کر دی جائے کہ جس بھی صوبہ کو نیشنل فنانس کمیشن میں جو بھی حصہ ہے اس کا تیس فیصد براہ راست صوبے کو دیا جائے جب کہ ستر فیصد براہ راست شہری اور بلدیاتی حکومتوں کو دیا جائے تا کہ مقامی حکومتوں کو مالی طور پر خود مختار کیا جا سکے اور وہ مالی طور پر صوبوں کی محتاج نہ رہیں۔

ایم کیو ایم کی ترامیم کو اس طرح نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔ کون اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم ہی اصل جمہوریت کی روح ہے۔ پاکستان میں اب تک یہ نہیں ہو سکا ہے۔ اس لیے یہاں مکمل جمہوریت بھی نہیں آسکی ہے۔ میری رائے میں ان آئینی ترامیم پر قومی اتفاق رائے ہی اصل جمہوریت کی ضمانت ہے۔ آج ایم کیو ایم ٹھیک بات کر رہی ہے۔ اس لیے اس کی حمایت ضروری ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس