دو دسمبر کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اپنا یوم تاسیس منائیں گی۔ امارات عرب اور مسلم دنیا میں غیر معمولی کامیابی کی کہانی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی آبادی دس ملین سے بھی کم ہے۔ اس میں بارہ فیصد امارتی ہیں، لیکن اس کا عالمی معاملات پر اثر اور اس کا انسانی ترقی میں مجموعی کردار کئی بڑے ممالک سے بھی بڑھ کر ہے۔ باون برس قبل صحرائے عرب میں سات نسبتاً گمنام ریاستوں نے ایک یونین کی صورت اپنی قومی زندگی کا آغاز کیا۔ اب اس یونین کا شمار جدید ترین ٹیکنالوجی کے عالمی لیڈروں ہوتا ہے۔ یہ مریخ کا مشن شروع کرنے والا پہلا عرب اور مسلم ملک ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ’’گلوبل مسابقتی رپورٹ2023‘‘ پر یواے ای دسویں نمبر پر ہے۔ یہ رپورٹ عالمی سطح پر ممالک کی مسابقتی سکت کی جانچ کرتی ہے۔
گلوبل پاسپورٹ پاور رینک انڈیکس 2023ء میں بھی یواے ای کا پہلا نمبر ہے۔ اسکا شمار پسماندگی کا شکار ریاستوں کو آفیشل ڈویلپمنٹ ایڈ (او ڈی اے) فراہم کرنے والی چوٹی کی دس ڈونر ریاستوں میں ہوتا ہے۔ اس کی کامیابیوں کی وجہ صرف تیل کی دولت نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے رہنماؤں کی معقولیت پرمبنی پالیسی کا تسلسل ہے جس کا ہدف جدید اور معتدل مزاج مسلم قوم کی تعمیر ہے۔
آزادی کے وقت متحدہ عرب امارات کے بانی، محترم شیخ زاید بن سلطان النہیان نے دو اہم فیصلے کیے جنھوں نے ملک کو کامیابی کے راستے پر گامزن کر دیا۔ پہلا سیاسی اسلام کو ترک کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ روایت پسندی جدید تصورات کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ دوسرا فیصلہ مشترکہ خواہشات کی بنیاد پر مثبت قومیت پسندی کو اپنانا تھا، نہ کہ منفی قومیت پسندی جسے نو آبادیاتی دور کے بعد زیادہ تر ریاستوں نے اپنا لیا۔ اس کی بنیاد کسی دشمن یا حریف سے نفرت پر رکھی گئی تھی۔ ایسا نہیں کہ یو اے ای کے دیگر ممالک کے ساتھ تنازعات نہیں۔ جب برطانوی فورسز نے الامارات المتصالحہ (Trucial State) سے انخلا کیا تو اس کے تین جزیروں پر ایران نے قبضہ کر لیا۔ یہ الامارات المتصالحہ تھیں جو 1971میں متحدہ عرب امارات کی صورت ابھریں۔ اس کے علاوہ یو اے ای کے سعودی عرب اور عمان کے ساتھ سرحدی تنازعات تھے۔ وہ فلسطینیوں کیلئے الوحدۃ العربیہ (Pan-Arab) کے جذبات بھی رکھتے تھے۔ لیکن شیخ زاید اور اُن کے صاحبزادوں، شیخ خلیفہ بن زاید اور شیخ محمد بن زاید (موجودہ صدر) نے ان تنازعات کو ایسا خبط نہیں بننے دیا جو عملیت پسندی پر مبنی فیصلہ سازی کی راہیں مسدود کر دیتا۔ متحدہ عرب امارات نے اپنی تیل کی دولت اپنے عوام پر خرچ کرتے ہوئے عالمی معیار کا انفراسٹرکچر، صحت کی سہولیات اور تعلیمی ادارے قائم کیے۔ شیخ زاید کے نزدیک ایک ہمہ جہت اور خوش حال معاشرے کے قیام اور سوئے منزل پیش قدمی کیلئے تعلیم ناگزیر تھی۔ 1975ء میں بالغ شرح خواندگی آدمیوں میں 58فیصد اور خواتین میں 38فیصد تھی۔ آج دونوں اصناف میں شرح خواندگی 95 فیصد ہے۔
یواے ای کی تعلیم اورعلم کے فروغ میں سرمایہ کاری اور عالمی مارکیٹ میں مسابقت کو دیکھتے ہوئے دنیا کی کچھ بہترین جامعات نے اپنے پروگرام اور کیمپس امارات میں قائم کیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کھجور کے پتوں سے بنے گھروں میں رہنے والی کم تعلیم یافتہ آبادی ایک نسل کے دوران انتہائی تعلیم یافتہ اور ماہر بن کربیرونی ممالک سے آنے والوںکے ساتھ کام کرنے لگی۔ 190ممالک کے شہریوں کی موجودگی نے امارتیوں کو کاسموپولٹن کی شکل دینے کے علاوہ یواے ای کوعالمی مہارت سے فائدہ اٹھا کر ترقی کرنے کا موقع دے دیا۔ گزشتہ عشروں سے انسانی صلاحیتوں کی قدر کرنیوالے ملک کی شہرت رکھتے ہوئے یواے ای نے دنیا بھر سے باصلاحیت اور تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ یواے ای میں کام کرنے والے محنت کش سالانہ چوالیس بلین ڈالر اپنے اپنے ممالک، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں بھیجتے ہیں۔
2021ء میں متحدہ عرب امارات سے ترسیلات زر کے سرفہرست پانچ وصول کنندگان میں بھارت، مصر، پاکستان، بنگلہ دیش اور فلپائن شامل ہیں۔ ان میںسے بھارت سالانہ ترسیلات زر کا تقریباً نصف وصول کرتا ہے۔تیل پیدا کرنے والے ملک کے طور پرمتحدہ عرب امارات نے مستحکم اور ماحول دوست توانائی کی پالیسیوں کو قبول کرنے میں اپنی ذمہ داری کو بہت سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت پہلے تسلیم کرلیا تھا۔ نومبر 2023 کے آخر میں متحدہ عرب امارات اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کی صدارت کرے گا، جسے دبئی ’’سی او پی 28 ‘‘ کہا جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات عالمی مالیاتی مرکز کی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے۔ اقوام متحدہ کی تجارت اور ترقی کی کانفرنس کی عالمی سرمایہ کاری رپورٹ 2023 ء کے مطابق 2022 ءمیں متحدہ عرب امارات میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمد 23 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ متحدہ عرب امارات بیرون ملک وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرتا ہے جس کا حجم متعدد عالمی فنڈز کے ساتھ ساتھ کئی اماراتی حکومت سے متعلقہ سرمایہ کاری کارپوریشنز کے ذریعے مجموعی طور پر ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔متحدہ عرب امارات ان چند مسلم اکثریتی ممالک میں سے ایک ہے جنھوں نے جدت، کاروبار اور ٹیکنالوجی میں شروع سے ہی بھاری سرمایہ کاری کی۔ 2021کا تصور، نیشنل ایڈوانسڈ سائنسز ایجنڈا 2031 اور اوپن لیبز یو اے ای کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں تحقیق اور جدت کیلئے شروع کی گئی پالیسیاں ہیں۔متحدہ عرب امارات کے خاص طور پر مغربی دنیا میں ناقدین موجود ہیں لیکن بہت کم لوگ اس بات سے انکار کریں گے کہ یہ خطے میں مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال ہے۔ 1971ءکے بعد سے متحدہ عرب امارات کی حکومت نے مذہبی آزادی کے تحفظ اور بین المذاہب افہام و تفہیم کو فروغ دینے والے پروگراموں کے نفاذ، شمولیت کیلئے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس میں 40گرجا گھراور 700 مسیحی ادارے پائے جاتے ہیں ۔ 2019ء میں یو اے ای نے اقوام متحدہ کی ایجنسی ، یونیسکو کے ساتھ شراکت داری کرتے ہوئے داعش کے ہاتھوں عراق میں تباہ ہونے والے چرچوں کی بحالی کیلئے کام کیا۔
اس وقت دبئی میں دو ہندو مندر ہیں۔ اس کے علاوہ ابوظہبی، دبئی اور شارجہ میں ہندوؤں کیلئے کئی ایک مرگھٹ فعال ہیں۔ یو اے ای میں پہلا سکھ گردوارہ دبئی میں 2012ء میں کھولا گیا تھا۔یہ ملک پارسیوں، بہائیوں اوردروز کمیونٹیوں کا بھی گھر ہے۔ متحدہ عرب امارات کی اقتصادی کامیابی، ٹیکنالوجی کے عزائم اور بڑھتے ہوئے عالمی اثرورسوخ کی وجہ رواداری کا وہ کلچر ہے جسے اسکے رہنماؤں نے فروغ دیا، اور انتہا پسندانہ نظریات کی بجائے عملیت پسندی کو جگہ دی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ