سچائی کی طلب بڑھ رہی ہے۔
واہگہ سے گوادر تک پیاسی روحیں کبھی آسمان کی طرف دیکھ رہی ہیں، کبھی زمین کی ۔
سچ سننے کوئی مشاعروں میں جارہا ہے، کوئی ادبی کانفرنس، کوئی کتاب میلے میں۔ کنوئیں بھی حرکت میں ہیں،پیاسے بھی۔آج کراچی میں سب کا رُخ ریڈ زون کی طرف ہوگا۔ کبھی اسے کوچۂ ثقافت کا نام دیا گیا تھا۔ سیف الرحمن گرامی یاد آتے ہیں، کھارادر، میٹھادر، کورنگی، اورنگی، ناظم آباد، لیاقت آباد، ڈیفنس، کلفٹن، گلشن اقبال، گلستان جوہر، حیدر آباد، میرپور خاص، نواب شاہ، لاڑکانہ، حب، لس بیلہ سے حرف و ورق سے عشق کرنے والے آرٹس کونسل کے آنگن میں جمع ہوں گے۔ اپنے پسندیدہ مصنّفین کی ایک جھلک دیکھنا چاہیں گے۔ سیلفیاں بنائیں گے۔
میں فیصل آباد آرٹس کونسل کے آراستہ ہال میں شوکت صدیقی کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے بیٹھا ہوں۔ ایک طرف ڈاکٹر انوار احمد ہیں، دوسری طرف ڈاکٹر نجیبہ عارف۔ اس سیشن کے مدار ہیں ڈاکٹر ضیا ء الحسن۔ فیصل آباد میںیہ اجتماع اصغر ندیم سید منعقد کرتے ہیں۔ اب تو شہر شہر ادبی میلے لگ رہے ہیں۔ ایک صاحب علم لائل پوری کہہ رہے ہیں۔ مجھے برسوں پہلے آپ کی غزل کا ایک مصرع آج بھی یاد ہے۔ وہ گھر کے سادہ سے کپڑوں میں خوب لگتی تھی۔زمانۂ طالب علمی کی ایک غزل۔ ’جنگ‘ کے اتوار کے کالم کا حوالہ تو ہرشہر میں ملتا ہے۔ بیٹوں بیٹیوں،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں،بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھائیں، اولادوں کے سوالات کے جوابات دیں۔
کراچی میں آج سے احمد شاہ کی عالمی اُردو کانفرنس۔ پھر 14 دسمبر سے 18 دسمبر عزیز خالد کا بین الاقوامی کتاب میلہ۔ جنگ میڈیا گروپ کے تعاون سے ہونے والا امینہ سید کا ادب فیسٹیول ہوچکا۔ ان سب میں پاکستانیوں کی کم از کم دو نسلیں تو ہوتی ہی ہیں۔ ہم جیسے 80 سے اوپر کے آجائیں تو تین نسلوں کاشبھ ملن ہوجاتا ہے ۔ یہ جو بھی منتظمین ہیں۔ اور جو بھی ان کی معاونت کررہے ہیں، ان سب کو تاریخ زندہ رکھے گی کیونکہ یہ صحرا میں اذان دے رہے ہیں۔ یہ کسی کو عقل کل نہیں سمجھتے ہیں۔ یہاں ماضی کی گرد جھاڑ کر حقائق تلاش کیے جاتے ہیں۔ حال کی خوبصورت پیکنگ اتار کر مصنوعات کا ’لیب ٹیسٹ‘کیا جاتاہے۔ مستقبل کے راستے سے ناکے ہٹائے جاتے ہیں۔
اتوار کے کالم ’اخلاقی بحران کی جڑیں پھیل رہی ہیں۔ پر مجھے ہر عمر کے پاکستانیوں سے پذیرائی ملی ہے۔ سب کا کہنا ہے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ جویریہ یاسمین۔ شعبۂ تدریس سے وابستہ ہیں۔ میرپور آزاد کشمیر سے ان کا پیغام ملا۔’ اخلاقی انحطاط زندگی میں روز افزوں ہے اور کسی سطح پر اس کے تدارک کا احساس بھی نہیں ہمارے بچوں کی جب بھی ہم سے بات ہوتی ہے وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم خود کو اپنے ماحول میں اجنبی خیال کرنے لگے ہیں۔ اخلاقیات،حیا اور ایمانداری پر بات کرنا ’آؤٹ آف ڈیٹ‘ ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہم عمروں کی اکثریت کیلئے اقدار کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔ بچے سوشل میڈیا سے ہر طرح کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے لگے ہیں۔ لباس گفتار چال ڈھال کھانے پینے کی عادات و آداب سب غیروں کا اپنالیا گیا ہے۔ بچیاں اسلام کی بالکل بنیادی تعلیمات سے ناآشنا ہیں۔ ایف ایس سی کی بچیوں کی اکثریت کو ناظرہ قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا۔ وہ تو بھلا ہو آزاد کشمیر حکومت کا کہ اس نے چھٹی جماعت سے ایف ایس سی تک فہم القرآن لازمی مضمون کے طور پر شامل کردیا ہے۔ بچے کچھ نہ کچھ قرآن پاک کا فہم حاصل کرنے لگے ہیں اسلامیات کا نصاب کلی طور پر نظر ثانی کا متقاضی ہے۔ جہاں بچوں کو ان کی عمر کے لحاظ سے اسلامی آداب اور قرآنی تعلیمات سے روشناس کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
کراچی سے بزرگ ایڈووکیٹ حنیف بندھانی نے بڑے گلوگیر لہجے میں دلائل کے ساتھ کہا کہ جب اخلاقی بنیادیں متزلزل ہوجائیں تو اس قوم کا کاروبار، سرکاری انتظام، سب درہم برہم ہوجاتا ہے۔ جب قومی رہنما جھوٹ بولتے ہیں،اعلیٰ عہدیدار اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں تو پارلیمنٹ، ادارے بے معنی ہونے لگتے ہیں۔ حنیف بندھانی 1947 کے ایک بڑے اثاثے کے امین ہیں۔ ان کے والد نے پاکستان کی سرکاری فائلیں اور دستاویزات،دہلی سے کراچی لانے کا اہم فریضہ پیشہ ورانہ طور پر انجام دیا تھا۔
اپنے کالموں کی اشاعت کے دنوں جمعرات اور اتوار کو میں فیس بک لائیو میں بھی یہ کالم پڑھ کر سناتا ہوں دنیا بھر سے درد مند پاکستانی شامل محفل ہوتے ہیں۔ وہ بھی اخلاقی انحطاط پر تشویش میں ہیں۔
میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ مغربی طاقتیں، ہم ایشیائی اقوام کو۔ بالخصوص مسلمانوں کو ذہنی طور پر اپنا غلام رکھنےکیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنی اخلاقی روایات سے دور کررہی ہیں۔عریانی، گلیمر، خوبروئی کے ہم رنگ زمیں جالوں میں پھنساکر وہ ہمیں اپنی اقدار سے روگردانی پر مجبور کرتے ہیں۔ ایک کشش بڑی تنخواہیں اور مراعات کا پیکج ہیں۔ ہم سب ’’چشم پوشی‘‘ کے دائمی کووڈ میں مبتلا کردیے گئے ہیں۔ تنخواہ دار خاتون ہو یا مرد، وہ بد اخلاقی سے اس لیے آنکھیں بند رکھتی ہے کہ یہ اچھا خاصا پیکج چلا جائے گا۔ اولادیں اگر احتجاج کرتی ہیں تو انہیں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سب عیش و آرام ختم ہوجائے گا۔گھریلو ملازمائیں، کراچی کی اصطلاح میں ماسیاں، چپراسی، نائب قاصد،سیکشن آفیسر، گریڈوں کے حامل اعلیٰ افسر، سب اپنے رتبے اور مراعات کھودینے سے خائف ہیں۔ جسم تو اس چشم پوشی سے جلا پاتا ہے۔ لیکن ہماری روح سخت کرب میں تڑپتی ہے۔ اسے مطمئن کرنے کیلئے پھر منشیات سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اپنی اپنی مالی حیثیت کے مطابق نشہ آور اشیا استعمال ہورہی ہیں۔
ذمہ داری ریاست کی ہے۔ مگر چشم پوشی ریاست کی گلوبل مجبوری ہے۔ علماء مشائخ، مفتیان کرام بھی چشم پوشی کا جوازتلاش کرلیتے ہیں۔ وہ بھی اپنے فاخرانہ طرز زندگی کو نہیں چھوڑ سکتے۔ کتاب سے دور ہیں۔ اس لیے الفاظ کے انتخاب کا انحصار سیاسی بیانیوں، سوشل میڈیا کے لطائف و ظرائف پر ہے۔ اس بد زبانی اور بد اخلاقی کے ماحول میں یہ ادبی علمی اجتماع لائق تحسین ہیں۔ یہاں ہر عمر کے پاکستانیوں کا سماجی شعور ایک قابل فخر سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ ایک سوال عام طور پر کیا جاتا ہے کہ جب عوام میں اتنا شعور ہے۔ وہ سڑک پر کیوں نہیں آتے۔ سڑک پر نہ آنا بھی ان کے شعور کی علامت ہے۔ ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘۔ ’’روٹی کپڑا مکان‘‘۔ ’’نظام مصطفیٰؐ کی تحریک‘‘۔ ’’بحالیٔ جمہوریت‘‘۔ ’’میثاق جمہوریت‘‘۔ ’’تحریک نجات‘‘۔ ’’آزادیٔ عدلیہ‘‘۔ کرپشن کے خاتمے پر جلسے جلوسوں نے عوام کو اتنے دھوکے دیے ہیں کہ اب وہ نیا دھوکہ کھانے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ اس شعور کا اظہار 2024 کے پولنگ بوتھ پر کریں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ