اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کی بقا اور معاشی استحکام جمہوریت میں پنہاں ہے۔ جن سے ہم جدا ہوئے اور جو ہم سے جدا ہوگئے،کہ حالات و واقعات، رویے اور کرتوت بالکل ہمارے جیسے ہیں، یعنی وہاں بھی وہ ہیراپھیری یا کرپشن اسی طرح زور وشور سے جاری و ساری ہے جس کو بہانہ یا جواز بنا کر ہمارے ہاں جمہوری رہنماؤں یا جماعتوں کو سیاسی منظرنامے سے غائب کر دیا جاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ کوئی بھی ملک یا معاشرہ اس حد تک آئیڈیل نہیں ہو سکتا کہ سو فیصد خیر پر مبنی ہو۔ مختلف لوگوں کے رویے مختلف ہوتے ہیں یوں تھوڑی بہت شر انگیزی بھی چلتی رہتی ہے اور سفر بھی جاری رہتا ہے۔
کامیابی سفر کے جاری رہنے میں ہے۔ اسی تسلسل کے باعث بھارت اور بنگلہ دیش مضبوط اور مستحکم معیشت کا روپ دھار چکے اور انکے ریزور قابل فخر حد کے قریب جب کہ ہمارے دامن کشکول،تین چار سال سے کسی نہ کسی اسلامی ملک سے رقم گروی لیکر تنخواہوں اور قرضے کی قسطیں ادا کرتے آرہے ہیں۔ چند لاکھ ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کی منت سماجت کرتی ہماری حکمران اشرافیہ کو بھی وہ موازنہ کر لینا چاہئے جو کمپیوٹر ہاتھ میں تھامے نئی نسل کی آنکھوں میں شکوے اور غصے کی طرح منعکس ہے۔یہ سوال صرف پڑھے لکھے لوگوں تک محدود نہیں رہا۔حالات حاضرہ سے باخبر ہر مردو زن کا ہے۔ سب کو احساس ہو چکا ہے کہ ہمارے آج کے حالات کی ذمہ داری ان شخصیات پر ہے جو ترقی کی شاہراہ پر دوڑ شروع کرنے کے فوری بعد رکاوٹوں کے بورڈ لیکر نمودار ہو جاتے ہیں۔جن کی مداخلت سے نہ صرف رفتار سست ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات دوڑنے والے کی مخالفت میں سڑک ہی مسمار کر دی جاتی ہے۔ گڑھے میں گرتے پڑتے سنبھلتے ڈگمگاتے قدم دوسروں کو کیا سہارا دیتے؟ دو ہزار سترہ کے پاکستان کا آج سے موازنہ کرلیجئے اگرچہ اسکی راہ میں ایک تاریخی اور سنگین لانگ مارچ کھڑا ہے۔اس کے باوجود وطن سے مخلص لوگوں نے رستے کی رکاوٹیں بھی ہٹائیں اور تعمیر کا سفر بھی جاری رکھا۔سوچئے اگر وہ صرف تعمیر کر رہے ہوتے تو آج پاکستان کس قدر خوشحال ہوتا۔ تاہم ایک بار پھر نئے انتخابات کی آمد آمد ہے، قوم پرجوش ہے لیکن عدم اطمینان کی بوجھل فضا نے سیاسی منظرنامے کو بھی اسموگ زدہ کیا ہوا ہے۔پچھلے کئی دنوں سے افواہوں اور بے معنی تجزیوں نے جمہوریت کے طلبگاروں کو متفکر کر رکھا ہے۔ ایسے میں بہت عمدہ شاعر قمر ریاض اورعمان میں پاکستان کے سفیر عمران چودھری کے اعزاز میں عہد ساز ادیب عطا الحق قاسمی کے گھر ایک شاندار عشائیے میں شرکت کا موقع ملا ،کھانا تو بہت لذیذ تھا ہی مگر ایسی گفتگو اور سیاسی مکالمہ عرصے بعد نصیب ہوا۔جس میں امید کی بتیاں جگمگاتی روح کو شاداب کرتی رہیں۔عمران چوہدری کی گفتگو میں کئی افواہوں کی سرکوبی ہوتی دکھائی دی۔ نہ صرف موجود لمحے بلکہ تخیل میں مستقبل کا روشن خاکہ بھی بنتا سنورتا نظر آیا۔مئی میں ہماری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے عمان کا دورہ کیا۔وہ پاکستانی کمیونٹی سے ملے ان کے سوالوں کے جواب دئیے، ان کے لب ولہجہ، حکمت عملی،عزم اور وژن کے حوالے سیعمران چوہدری کی گفتگو بہت حوصلہ افزا تھی۔ اب یہ بات مختلف حلقوں میں سنائی دی جانے لگی ہے کہ جنرل عاصم منیر ایوب، یحیی، ضیا اور مشرف کے رستے کے مسافر نہیں بلکہ ترقی کی شاہراہ کو رواں دواں رکھنے کے لئے موجود ملبہ پوری طاقت سے ہٹا رہے ہیں۔یہی بات تو ہم سننا چاہتے ہیں۔جمہوری حکومت اور دفاعی ادارے کا ملک کو معاشی دلدل سے نکال کر خودمختار بنانے کیلئے یک نکاتی فارمولے پر متفق ہونا ضروری ہے۔لوگ ایک پیج پر رہنے کا ڈرامہ نہیں کام دیکھنا چاہتے ہیں۔ میاں نواز شریف ترقی اور تنزلی کا موازنہ کرتے ہوئے صرف اپنے آخری دور کا تذکرہ کرتے ہیں جبکہ جمہوریت کے ہر پانچ سالہ دور میں ایسا ہی تجربہ دہرایا گیا ہے۔ تاہم ایک نئے عہد کی شروعات ہمارے دل میں امید کی روشنی کر چکی ہے۔ آخر میں مجید لاشاری کی خوبصورت غزل سنئے اور سر دھنئے
سجودِ اولیں ہے اور میں ہوں
وہیں میری جبیں ہے اور میں ہوں
حسیں راتیں طرب انگیز مستی
خیالِ ہم نشیں ہے اور میں ہوں
شبِ فرقت کوئی مونس نہیں ہے
تری یادِ حسیں ہے اور میں ہوں
جو شرمائے تصور میں بھی آکر
وہی میرے قریں ہے اور میں ہوں
بس اِتنا ہے محبت کا فسانہ
کہ تو میرا نہیں ہے اور میں ہوں
بشکریہ روزنامہ جنگ