معاشرہ و تحریک محروم تو آج بھی نہیں مگر ایک دور میں مخلصین کے پھریرے ہر سو لہراتے تھے-
سمع و طاعت کے ستارے اور مینار ہر جانب نظر آتے تھے۔ تحریک کا پائے دان (پیڈسٹل) استمعال میں لاکر لوگ اپنی “ہٹی اور کھٹی”(دوکان اور کمائی) کا بندوبست نہیں کرتے تھے-
فی الواقع لوگ “قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ۔
تم کہہ دو ، بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔”
کی تصویر ہوا کرتے تھے۔ مخلصین و محسنین کی کمی اب بھی نہیں، ایسا ہوا تو ملک و معاشرہ موت کی نیند سو جائے گا۔
ان مخلصین و محسنین کی فہرست میں ایک ممتاز فرد نثار صابر بھی تھا۔
جناب مختار مسعود نے بہت خوبصورتی سے شہدا،محسنین اور اہل جمال بارے آواز دوست میں کہا ہے کہ
“پہلے گروہ کے لوگ شہید کہلاتے ہیں اور اس دوسرے گروہ میں جو لوگ شامل ہیں انھیں محسنین کہا جاتا ہے –
اہل شہادت اور اور اہل احسان میں فرق صرف اتنا ہے کہ شہید دوسروں کے لیے جان دیتا ہے – اور محسن دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے –
ایک کا صدقہ جان ہے اور دوسرے کا تحفہ زندگی –
ایک سے ممکن وجود میں آتا ہے اور دوسرے سے اس وجود کو توانائی ملتی ہے –
ان کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہوتا ہے جو اس توانا وجود کو تابندگی بخشتا ہے –
جو لوگ اس آخری گروہ میں شامل ہوتے ہیں انھیں اہل جمال کہتے ہیں –
زندگی کو ایک گروہ نے ممکن بنایا دوسرے نے توانا اور تیسرے نے تابندہ –
جہاں یہ تینوں گروہ موجود ہوں وہاں زندگی موت کی دسترس سے محفوظ ہو جاتی ہے ، اور جس ملک یا عہد کو یہ گروہ میسر نہ آئیں اسے موت سے پہلے بھی کئی بار مرنا پڑتا ہے –
جس سرحد کو اہل شہادت میسر نہ آئیں وہ مٹ جاتی ہے –
جس آبادی میں اہل احسان نہ ہوں اسے خانہ جنگی اور خانہ بربادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے –
جس تمدن کو اہل جمال کی خدمات حاصل نہ ہوں وہ خوشنما اور دیرپا نہیں ہوتا -”
اس ملک و عہد کو موت آئی اور نہ سرحد مِٹی کہ اہل شہادت و محسنین ابھی موجود ہیں۔
صحافت کی پُر خار وادی میں میرے ابتدائی سال تھے جامعہ کشمیر کے شعبہ الیکٹریکل انجینیئرنگ میرپور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن عرفان بھائی کو غنڈؤں نے بے دردی سے قتل کردیا۔ بیوہ ماں کے بیٹے عرفان شہید کے قاتلوں کےخلاف قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ ہوا۔
نثار صابر اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے معتمد (سیکریٹری ) تھے۔
اُن سے تعارف تو تھا مگر باضابطہ ملاقات اُن سے اُس دن ہوئی جب انھوں عرفان کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کے لئے قانونی چارجوئی کی ذمہ داری مجھ ناتواں کے کندھوں پر ڈالی۔
اس مشکل کام کی ذمہ داری لینا سہل نہ تھا مگر نثار بھائی کے درد بھرے لہجے اور پُرخلوص “حکم” کے آگے میں نے سرِتسلیم خم کیا۔
ریڈ فاؤنڈیشن کے ابتدائی امانتدار اراکین (Trustees) میں، میرپور ہی سے شامل تھا۔ اسلام آباد منتقل ہوا تو ریڈ میں آمد ورفت ہوئی اور نثار بھائی سے رابطہ بھی بڑھ گیا-
انھیں قریب سے جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا- ریڈ کا یہ وہ دور تھا جب پیشہ ور (Professional) کم اور مخلص و محسن زیادہ ہوتے تھے۔ محسنین کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا نثار انتہائی صبر سے مقصد سے جُڑا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ماہر پیشہ ور بھی بن گیا۔ امانتدار اراکین ریڈ کے ہمارے آخری سالوں میں ، کچھ سرد گرم شروع ہوگیا تھا۔ “چابک دست منتظم” کی “چابکدستی” کے نتیجے میں کچھ لوگوں کو ریڈ سے الگ کردیا گیا اور کچھ نے حالات سے بددل ہو کر امانت داری یا Trusteeship میں مزید رہنے سے انکار کردیا، انتظامیہ نے اس “انکار” کو قبول نہ کیا مگر کچھ عرصہ بعد ٹرسٹیوں کو اپنے ہدف کے مطابق انجام تک پہنچا دیاگیا۔ان سطور کے لکھنے کا بظاہر یہ محل نہیں مگر اداروں کو صحیح راہ پر رکھنے کے لئے بہت سی خاموشیاں جُرم ہوا کرتی ہیں۔
اُتھل پُتھل کے اُس دور میں بھی نثار صبر سے مقصدیت پر نثار ہوتے رہے۔ تحریک کے حکم پر بعد ازاں وہ “ضرورت میں مدد” (Help in Need) کے منتظم بنے، اپنی صلاحیتوں کا شاندار مظاہرہ کیا۔ آخری سالوں وہ ایک اور نجی غیر سرکاری تنظیم میں بڑے صاحب کے نائب کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس تنظیم کا تعلق اگرچہ تحریک سے نہیں مگر مقاصد بہت اعلیٰ ہیں۔ نثار بھائی کی تربیت میں تحریک اسلامی کا اہم کردار تھا، تحریک کی تربیت کو انھوں آخر الذکر تنظیم میں بھی پورے خلوص اور للہیت سے بروئے کار لایا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وہ صبر سے مقصدیت پر نثار ہوگیا-
ایسی شاندار موت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے کہ وہ فرض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھے اور بلاوا آگیا اور لوٹ گے۔
“یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔ اے اطمینان والی جان۔اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو۔”
اللہ تو اپنے بندے کی حسنات قبول اور لغزشیں معاف کرنا۔
اللہ ہمیں سازشوں ، حسد اور منافقت سے پاک کرکے اپنا بنا لے اور ہمارا خاتمہ بھی خیر پر کرنا۔
آمین یا رب العالمین۔
Load/Hide Comments