قتل عام کی متعدد اقسام ہوتی ہیں۔ جسمانی قتل عام، معاشی قتل عام اور معاشرتی قتل عام وغیرہ۔ بدقسمتی سے پاکستان کے پختونخوا اور بالخصوص قبائلی اضلاع نے گذشتہ چند دہائیوں میں باری باری قتل عام کی ان مختلف اقسام کا سامنا کیا لیکن چونکہ اس پر اس طرح سیاست نہیں چمکتی جس طرح کے فلسطین وغیرہ کے ایشو پر نہیں ہوتی اسلئے کوئی سیاسی لیڈر یا صحافی انہیں اپنی سیاست یا صحافت کا موضوع نہیں بناتا ۔ قبائلی اضلاع کا سیاسی اور قانونی قتل عام یا استحصال تو انگریزوں کے دور سے ایف سی آر کالے قانون کے تحت ہورہا تھا ۔ پھر افغانستان سے متعلق پاکستان کی غلط پالیسیوں کے لئے اسے اس ریاست نے اپنی لیبارٹری بنا دیا اور یہاں بیس سال تک جسمانی قتل عام ہوتا رہا جو اب کسی حد تک کم ہوا ہے لیکن کسی نہ کسی شکل میں بدستور جاری ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں ان تمام قتل ہائے عام کے ازالے کے لئے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخواہ کیساتھ ضم کردیا گیا لیکن افسوس کہ اسکے بعد بھی نہ صرف قبائلی اضلاع بلکہ پورے خیبر پختونخوا کا کسی نہ کسی حوالے سے قتل عام جاری ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انضمام کے بعد مالی معاملات صوبے کے سپرد کردیے جاتے لیکن مسلم لیگ کی حکومت کے خاتمے پر جو پروجیکٹ لانچ کیا گیا اس کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں تھا۔ انضمام کے بعد خیبر پختونخوا کا صوبہ اپنی آبادی اور رقبے میں اضافے کے بعد اصل میں ایک نیا صوبہ بن گیا۔ وفاقی محاصل کی تقسیم کا جو فارمولہ ملک میں رائج تھا اس میں اس حساب سے تبدیلی ناگزیر تھی۔ صوبے کا حصہ لگ بھگ چودہ فیصد سے بڑھ کر ساڑھے انیس فیصد ہو جانا تھا ۔ تاہم اس میں نئی آبادی توشامل ہوگئی لیکن عمران خان کی حکومت نے وفاقی محاصل میں اس کا حصہ انیس فیصد پر لانے کی بجائے سابقہ چودہ فی صد پر برقرار رہا۔ حالانکہ انضمام کے وقت تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت نے بالاجماع یہ فیصلہ کیا تھا کہ یہ حصہ انیس فی صد کرنے کے علاوہ قبائلی اضلاع کو دس سال تک ڈویزیبل پول سے تین فی صد اضافی دئیے جائیں گے جو تقریبا سوا ارب روپے بنتے تھے لیکن گزشتہ پانچ سالوں میں ایک سال بھی ایسا نہیں ہوا حالانکہ سرتاج عزیز کمیٹی جو پچیسویں ترمیم کی بنیاد ہے، میں بھی یہ بنیادی نکتہ شامل تھا۔
عمران خان کومسلط کرنے کے پروجیکٹ نے جہاں باقی ملک کا معاشی بیڑا غرق کیا وہاں ان وعدوں کو بھی جوتے کی نوک پر رکھ دیا گیا حالانکہ صوبے اور وفاق میں ایک ہی پارٹی کی حکومت تھی۔ مہربانوں نے جب پروجیکٹ سے ہاتھ کھینچا تو امید تھی کہ انضمام کے ناتمام منصوبوں کو مہمیز ملے گی لیکن افسوس کہ پی ڈی ایم کی حکومتی ترجیحات میں بھی ان وعدوں کو کوئی جگہ نہ ملی۔ سو اب انضمام کے بعد سے اب تک ان وعدوں پر عمل درآمد کی صورتحال یہ ہے کہ جاری اخراجات (یعنی تنخواہوں اور پٹرول وغیرہ) کی مد میں جو ساٹھ ارب روپے ملتے تھے اسے اسی رقم پر منجمد کردیا گیا ہے۔ باقی ملک میں تنخواہیں بڑھائی گئیں، پٹرول کے نرخ بڑھنے کی وجہ سے اسی حساب سے باقی صوبوں نے اپنا بجٹ بڑھا لیا لیکن فاٹا کے ضم شدہ اضلاع میں تنخواہیں دوہزار اٹھارہ کے حساب سے دی جارہی ہیں اور پٹرول وغیرہ کا نرخ بھی اسی سال کے حساب سے ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس سال ان علاقوں میں اس مد میں صوبہ اپنے پلے سے ستانوے ارب روپے خرچ کریگا اور وفاقی حکومت نے اس مد میں چھیاسٹھ ارب روپے کا وعدہ کیا ہے لیکن معاشی طور پردیوالیہ صوبہ اپنے حصے کی رقم دے سکتا ہے اور نہ وفاقی حکومت اپنا وعدہ پورا کرسکے گی۔
وفاق کی طرف سے سالانہ سو ارب کی کہانی اس سے بھی زیادہ وحشتناک ہے۔ کبھی بیس ارب تو کبھی ستائیس، وہ بھی ترسا ترسا کر اور اس طرح کہ استعمال نہ ہوسکیں۔ مثلا پچھلے مالی سال کے ستائیس ارب میں سے سترہ ارب جون کی چھبیس تاریخ کو دیے گئے۔ اس میں سے بھی دس ارب روپے ایک اور لطیفے کے نام پر صرف کاغذوں کی حد تک تھے۔ جون کے جو چار آخری دن رہ گئے تھے وہ عیدالضحی کی چھٹیاں تھیں۔ اب مطالبہ یہ تھا کہ سارے پیسے کو ان چھٹیوں کے چار دنوں میں ان ضم اضلاع میں خرچ کیا جائے۔ ظاہر ہے یہ ناممکن تھا لیکن اس کی آڑ لے کر پھر وفاقی حکومت کی بیوروکریسی ایک اور بے شرمی کرتی ہے جبکہ چھٹے دن اگلا مالی سال شروع ہوتے ہی صوبے کو مطلع کرتی ہے کہ چونکہ آپ ان پیسوں کو وقت پر خرچ نہیں کرسکے اسلئے آپ کو تب تک نئے سال کی قسط (بقدر اشک بلبل) نہیں ملے گی جب تک آپ اسے خرچ نہیں کرلیتے۔ یعنی تین مہینے تک کوئی نئے پیسے نہیں، کرلوجو کرنا ہے۔
انضمام کے وقت سابقہ فاٹا میں ہزاروں چھوٹے بڑے پروجیکٹس کا ڈول ڈالا گیا اور وسائل کا بندوبست کیے بغیر کام شروع کردیا گیا۔ جب پیسے نہیں ملے تو صوبائی حکومت پر ذمہ داری آن پڑی۔ صوبہ بھی پچھلی حکومت کے وقت سے وسائل سے محرومی کا شکار ہے۔ بجلی کا خالص منافع جو اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق ملنا تھا ، نہ ملا۔ بس صوبے کو ہر مہینے تین ارب روپے کی فکس رقم پر ٹرخادیا جاتا رہا۔ یہ صورت حال دسمبر دوہزار اکیس تک جاری رہی۔ حتی کہ بقایا جات رقم ڈیڑھ کھرب تک جاپہنچی۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں اسحاق ڈار صاحب کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی جس نے اس تاریخی زیادتی پر ہاتھ کھڑے کردیے اور صاف بتادیا کہ آگے کی بات کریں۔ ایک اور فارمولا طے پایا جس کے تحت واپڈا ایک روپے دس پیسے کے حساب سے فی یونٹ صوبے کو ادائیگی کریگا۔ اس میں ہر سال پانچ فی صد کے حساب سے اضافہ کیا جائے گا۔آپ سوچیں گے کہ چلیں کچھ تو ملا۔ جی نہیں۔ جنوری دوہزار بائیس سے وہ تین ارب مہینے کے ملنے بھی بند ہوگئے۔ پچھلے پورے مال سال میں پانچ ارب اور اس مالی سال میں اب تک کل پانچ ارب ملے ہیں۔ تماشا یہ ہے کہ واپڈا صوبے کے حصے کی رقم سی پی پی اے سے وصول کرلیتا ہے لیکن صوبے کو ادا نہیں کرتا۔ کہتا ہے پہلے اپنے خرچے پورے کروں گا۔ کچھ بچے گا تو تمہیں بھی دے دوں گا۔ چنانچہ اب اسحاق ڈار فارمولے کے تحت صوبے کے مرکز کے ذمے بقایا جات بھی نوے ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ واپڈا جو بجلی صوبے کے اپنے بنائے بجلی گھروں سے خریدتا ہے اس کے سات ارب کی ادائیگی کا بھی نادہندہ ہے۔ نتیجتا صوبہ اپنی تنخواہیں اور پنشن ادا کرنے سے معذور ہے اور اوپر سے وسائل کی عدم موجودگی میں اسے ضم شدہ اضلاع کا بوجھ بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مرحوم وزیر اعلی اعظم خان صاحب نے سابق وزیر اعظم شہباز شریف ، موجودہ جناب انوار الحق کاکڑ اور اسحاق ڈار صاحب کو ایک درجن خطوط لکھے جن میں بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی لیکن وہ یہ حسرت دل میں لیے دنیا سے چلے گئے۔
بلاشبہ ضم شدہ اضلاع کے ساتھ اس ظلم کی اصل ذمہ دار عمران خان کی حکومت رہی لیکن باقی سیاسی قیادت بھی پوری طرح شریک ہے ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ