لنڈے کے بوٹ۔۔۔۔مرزاتجمل جرال


گھر پہنچا تو خلاف توقع بوٹوں کا ایک جوڑا منتظر تھا پوچھنے پر پتا چلا کہ ، بچے لے کے آئے ھیں،
طلب کیا؛
پوچھا، یہ کیا حرکت ھے….. ؟
بیٹا کہنے لگا،
ابوجی #
ھم دیکھ رھے تھے کہ آپ ایک عرصے سے پرانے بوٹ پہن کے سکول جاتے ھیں، وھاں عام لوگوں کے علاوہ آپ کے دوست احباب اور پھر ھمارے بھی بے شمار جاننے والے آپ سے ملتے ملاتے ھیں،
ھم نہیں چاھتے کہ ھمارے دوست اور دیگر جاننے والے آپ کے پرانے بوٹوں پہ کوئی تنقیدی تبصرہ کریں، اس لیے ھم نے یہ قدم اٹھایا،
لیکن بیٹا آپ کو معلوم ھونا چاھئے کہ میں اس طرح کے نئے اور اعلی کوالٹی کے بوٹوں اور کوٹ کی نسبت،
لنڈے کے بوٹ اور کوٹ پہننا زیادہ پسند کرتا ھوں، تو پھر میرے مزاج کے برعکس یہ نئے بوٹ لانے کی کیا ضرورت تھی، اس سے پہلے کہ بیٹا اپنے دلائل پیش کرتا اور لنڈے کے نقصانات بیان کرتا،
قریب بیٹھے جیدو کے صبر کا پیمانہ اور رگ ظرافت دونوں ھی پھڑک اٹھے،
کہنے لگا بیٹا دیکھو .!
آپ کے ابو ٹھیک کہتے ھیں،
لنڈا دراصل انگریزوں کی استعمال شدہ پرانی اور بعض اوقات نسبتاً نئی( البتہ متروک) چیزوں کو کہا جاتا ھے،
یہ تمام مال بالعموم یورپ اور بالخصوص برطانیہ سے پاکستان درآمد کیا جاتا ھے،
یہ وہ مال ھوتا ھے جو قابل استعمال تو ھوتا ھے لیکن بوجوہ انگریز اسے مزید پہننا مناسب نہیں سمجھتے، اور ردی کے بھاؤ اور بعض حالات میں مفت بھی دوسرے ملکوں کو دے دیتے ھیں،
ھمارا تجربہ اور مشاھدہ یہی بتاتا ھے کہ غریب ملکوں میں پہنچنے کے بعد، نئی چیزوں کے مقابلے میں یہ بہت سستا بھی ھوتا ھے اور انگریزوں سے نسبت کے باعث اس پر لوگ تنقید بھی نہین کرتے بلکہ عوام کا گمان یہ ھے کہ یہ زیادہ مضبوط اور پائیدار ھوتا ھے،
اگر آپ کو میری اس رائے سے اتفاق نہیں تو ذرا دوسرے زاوئیے سے دیکھ لیں،
پاکستان کو آزاد ھوئے پچھتر سال ھو چکے ھیں،
قوم اور عوام،
آج بھی قومی اور ملکی معاملات میں اور بالخصوص عام انتخاب میں جہاں ان کو رائے دینے کا موقع ملتا ھے وھاں وڈیروں، سرمایہ داروں اور گدی نشینوں کے حق میں بار بار صرف اس لیے فیصلہ دیتے ھیں کہ ان کی نسبت انگریزوں سے ھے؛
اگر ملک کے کروڑوں لوگوں نے پچھتر سالوں میں لنڈے کے سیاستدانوں کو نہین چھوڑا تو آپ اپنے ابو کے لنڈے کے بوٹ ترک کرنے پہ کیوں بضد ھیں#
اب آپ کو انگریزوں کے ملک سے آئے ھوئے لنڈے کے بوٹوں اور کوٹوں کی اھمیت کا اندازہ ھو جانا چاھئے اور ابو کے حسن انتخاب کی داد دینی چاھئے،#
میں چپ چاپ جیدو کے مدلل جواب اور بچوں کے مبہوت چہروں کو دیکھ کر لطف اندوز ھورھا تھا