پیرپور رِپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ کانگریسی رہنما آئے دن اعلان کرتے رہتے ہیں کہ وہ غریبوں کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں، لیکن ہماری تحقیقات کے دوران ثبوتوں کے ساتھ یہ حقیقت ہمارے سامنے آئی کہ کانگریس اور سوشلسٹ تنظیموں نے مسلم کسانوں اور کارکنوں کے ساتھ بےجا امتیازی سلوک روا رَکھا ہے۔ غیرمسلم زمینداروں اور سرمایہ داروں کے گماشتوں نے اُن جھگڑوں کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جو خاص معاشی نوعیت کے تھے۔
موضع تلکوری (Tilkori) ضلع ہزاری باغ، صوبہ بہار کے ایک واقعے میں مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے گئے، اُن کی تفصیلات اخبارات کے ذریعے منظرِ عام پر آ چکی ہیں، تاہم یہ اشارہ کرنا ازبس ضروری ہے کہ اِس واقعے سے کچھ عرصہ پہلے اِسی ضلع میں ایک مسلمان زمیندار اَور ایک کانگریسی رضاکار کے درمیان معمولی سی تکرار ہوئی تھی جس کی عدالتی تحقیقات کرائی گئی اور ایک بہت بڑا جلسہ بھی منعقد ہوا جس میں ایک پارلیمانی سیکرٹری بھی شریک ہوا تھا۔
ظلم کا شکار گاؤں کے وہ غریب ترین لوگ ہوئے جو آسودہ حال برہمنوں کے مویشی چراتے اور اُن چھوٹے چھوٹے قطعاتِ اراضی پر گزر اَوقات کرتے ہیں جو اُنہیں اُن کی خدمات کے صلے میں دیے گئے ہیں۔ یہ ستم رسیدہ، بےکس اور غریب لوگ چالیس میل پیدل چل کر ضلعی مسلم لیگ کے دفتر پہنچے جہاں کچھ مسلمان وکلاء نے واقعے کی اطلاع بھجوائی تھی۔ اطلاع ملتے ہی لیگ کا سیکرٹری موقع پر پہنچا اور اُس نے حالات کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ایک بیان جاری کیا۔ دکھ کی بات یہ کہ کانگریسی تنظیم آٹھ دن تک چپ سادھے رہی۔ غالباً اُس کا دامن داغدار تھا۔
پھر موضع سِیون (Seewan) میں جو صوبہ بہار کے ضلع ساون کی ایک تحصیل میں واقع ہے، کچھ مسلمانوں کے مکان نذرِ آتش کر دیے گئے۔ جب مسٹر عبدالغنی ایم۔ایل۔اے۔ جائے واردات پر پہنچے، تو اُس وقت بھی کئی مکان جل رہے تھے۔ اتفاق سے یہ گاؤں بابو راجندر پرشاد کے گاؤں کے قریب واقع ہےجو انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر اَور کانگریس کی مجلسِ عاملہ کے رکن ہیں، لیکن قومی تنظیم کہلانے والی جماعت کا کوئی نمائندہ اُن کی دادرسی کرنے نہیں آیا۔
اِسی طرح موضع راحلی (Rahli) ضلع سوگور (Saugor) صوبہ سی۔پی۔ میں بیڑی کے صنعت کاروں نے سینکڑوں مزدور محض اِس بنا پر ملازمت سے نکال دیے کہ اُنہوں نے اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دیے تھے۔ کوئی سیاسی یا مزدور تنظیم حتیٰ کہ بلندبانگ سول لبرٹیز یونین بھی اُن بےچارے مزدوروں کا دکھ بٹانے نہیں آئی اور اُنہیں ناقابلِ برداشت حالات میں اپنا گھربار چھوڑنا پڑا۔پیرپور رِپورٹ یہ واضح کرتی ہے کہ کانگریس جس شہری آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی ہے، وہ کم از کم مسلمانوں کی حد تک کہیں نظر نہیں آتی۔ اِس کے برعکس ہمیں یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ کان پور میں مزدوروں کی ہڑتال کے دوران ضلعی مسلم لیگ نے ہندواَورمسلم مزدوروں کے درمیان مذہبی عقیدے کی تمیز کیے بغیر ہر شخص کی مدد کی اور اُن میں یکساں طور پر کھانا اور دُوسری ضروریاتِ زندگی تقسیم کیں۔ اِسی طرح یو۔پی۔ کے مشرقی اضلاع میں حالیہ سیلابوں کے دوران بھرائچ، گونڈہ بستی اور دُوسرے مقامات سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رضاکاروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ہندوؤں اور مسلمانوں کی فیاضانہ مدد کی۔
دوسرے جمہوری ملکوں کے مقابلے میں ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کی حالت بڑی مختلف ہے۔ یہاں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کسی فرقے کی جماعت، قومی پارٹی کا روپ نہ دھار لے اور کوئی فرقہ وارانہ قضیّہ نہ کھڑا کر دے۔ گزشتہ عام انتخابات میں کانگریس نے غریبوں کی حالت سدھارنے کے لمبے چوڑے وعدے کر کے لوگوں میں بڑی سہانی امیدیں پیدا کر دی تھیں، لیکن سب سے پہلے ہندوستان میں غریب ترین مسلم طبقے نے کانگریس سے سخت بیزاری کا اظہار کیا تھا، کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ کانگریس کا معاشی پروگرام فقط ایک دھوکا اور مسلمانوں کو خرید لینے کا ایک حربہ ہے۔
کلکتہ میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائدِاعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ مسلم لیگ کی جنگ ہندوؤں سے نہیں بلکہ کانگریس کی ہائی کمان سے ہے۔ مسلم لیگ اپنے سیاسی نظریے کے مطابق اُن دوسری ترقی پذیر جماعتوں سے اتحاد کرنے کی مجاز ہے جن کے اغراض و مقاصد اُس سے ملتے جلتے ہوں، کیونکہ اِس کے پیشِ نظر مسلمانوں کی بہتری اور ملکی مسائل کے ایک منصفانہ حل کی دریافت اور اِسے عملی جامہ پہنانا ہے۔
کانگریس نے دھوکےبازی اور تشدد کے وہی طریقے استعمال کیے جن کی وہ برطانوی دورِ حکومت میں مذمت کرتی آئی ہے۔ وہ مسلم لیگ کے خلاف جعل سازی سے مختلف جماعتیں کھڑی کرتی اور اُس کے رہنماؤں کے خلاف الزام تراشی کی زہریلی مہم چلاتی رہی ہے۔ مزیدبرآں وہ چند اشخاص جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ کر اسمبلی کے رکن بنے، اُنہیں بہلا پھسلا کر کانگریس کے حلف نامے پر دستخط کرائے گئے اور مسلم عوام کے نمائندوں کی حیثیت سے اُنہیں وزارتوں میں جگہ دی گئی۔
یہ بھی ایک شرمناک حقیقت ہے کہ کانگریس کے طرف دار علماء نے کانگریسی امیدواروں کے لیے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر مذہب کا نام بڑی بےدردی سے استعمال کیا۔ بجنور کے ضمنی انتخاب میں کانگریس سے وابستہ مسلم کارکن سبز اسلامی لباس میں ملبوس اپنے جلسوں میں اللّٰہ اکبر کے نعرے لگاتے اور چاند تارے کے اسلامی پرچم لہراتے رہے۔کانگریسی پلیٹ فارم پر مشہور کانگریسی رہنماؤں کے دوش بدوش ایسے افراد بھی دیکھے گئے جو اَپنی تنگ دلانہ فرقہ واریت کی وجہ سے بڑے بدنام تھے۔ اُن مقررین میں ایک ایسا شخص بھی تھا جسے حال ہی میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے الزام میں سزا ہوئی تھی اور وُہ ضمانت پر رہا ہو کر آیا تھا۔صوبہ بہار میں ہمارے علم میں فرقہ وارانہ نفرت بھڑکانے والی ایسی تقریریں لائی گئیں جو اُن جلسوں میں کی گئیں جن میں کانگریس کے ذمےدار رَہنما اور پارلیمانی سیکرٹری شرکت کرتے رہے۔ اِسی طرح سی۔ پی۔ کے بعض واقعات ہمارے علم میں لائے گئے جن سے اِس بات کا عَین بَعَین ثبوت ملتا ہے کہ کانگریس اور مہاسبھا کے مقاصد تقریباً ایک جیسے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص بیک وقت کانگریس اور مہاسبھا کا رُکن بن سکتا اور مسلمانوں کو بھاری زک پہنچا سکتا ہے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ