زہر آلود بیج، زہریلا پھل : تحریر حفیظ اللہ نیازی


میں ایک بدقسمت پاکستانی، مثبت سوچ سے یکسر محروم، وطنِ عزیز کے پُر خطر مستقبل بارے انجانے خوف، وسوسے، خدشات گھائل کر چکے ہیں۔ تکلیف، ’’متاع دین و دانش و دنیا لٹ جانے کی نہیں‘‘، پژمردگی کہ ’’احساس زیاں جاتا رہا‘‘۔ ہر طاقتور اپنی ذات کا ایجنڈا، کمالِ بے نیازی اور فراخدلی سے ملک و قوم کا ایجنڈا سمجھ بیٹھتا ہے۔ ملک کو تباہی کے دہانے پر لانے والوں کا کمال، ملک کی تباہی و بربادی کا ہوم ورک تندہی سے مکمل کیا، ذاتی مفاداتی ایجنڈا کی تگ و دو میں ملک کی قسمت سے کھیل گئے۔ تباہی و بربادی کا سدِباب کیا ہوتا، ذمہ داروں کو کیفر کردار پر پہنچانے کی بجائے، ہمیشہ انکی حفاظت مقدم رہی۔2011ء سے شروع پراگندہ کھیل، 2014ء وہ بدقسمت سال جب عملی جامہ پہنانے کیلئے بغیر کسی وجہ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کا مذموم ایجنڈا سامنے لایا گیا۔ بہتان، جھوٹ، میڈیا پروپیگنڈہ، ہر اوچھا ہتھکنڈا عمران خان اور طاہر القادری کے زیر استعمال رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کی ایک ٹولی نے مملکت سے ایک بار پھر ویڈیو گیم کھیلنے کی ٹھانی۔ مقصد نواز شریف کی ’’سیاست سے ریاست‘‘ کو بچانا تھا۔ صد حیف! معمولی فائدہ کی خاطر ریاست اور اپنے ہی ادارے کو ایندھن بنا ڈالا۔ 24کروڑ 60لاکھ افراد لقمہ اجل بننے کو اور ریاست آج بغیر کسی نظام ِ حکومت کے پستی کے گڑھے میں دھنس چکی ہے۔ خطہ ارضی کی تاریخ بھری ہے، سینکڑوں قومیں نیست و نابود ہوئیں، مملکتیں تحلیل ہوئیں کہ اندرونی خلفشار اور انتشار، باہمی ٹکراؤ، جو سیاسی استحکام لایا، بالآخر جان لیوا ثابت ہوا۔ سیاسی عدم استحکام کی کوکھ ہی سے تو ابتر اقتصادی، معاشرتی، سفارتی، دفاعی گویا کہ ہر شعبہ زندگی بد سے بد تر بننا تھا۔ ہمارے ہاں دلچسپ صورتحال کہ سیاسی عدم استحکام باقاعدہ ہوم ورک اور ایجنڈا کےمطابق سر انجام پاتا رہا۔ میجر جنرل خادم راجہ (STRANGER IN MY OWN COUNTRY) میں رقم طراز، ’’مشرقی پاکستان کے اندر افراط و تفریط، فساد لڑائی چند جنگجو (HAWKS) جرنیلوں کی باقاعدہ سوچ اور احکامات کی مطابق تھی۔ جنرل یحییٰ خان کے قریبی جرنیلوں کا اندازہ تھا کہ 1970ءکے الیکشن میں SPLIT MANDATE یعنی منقسم نتائج نے یقینی رہنا تھا۔ کوئی سیاسی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی، جبکہ نتیجہ اسکے بر عکس نکلا۔ ہمیں بخوبی معلوم تھا7 دسمبر 1970 ءکا دن ہر لحاظ سے عوامی لیگ کے زیرِ اثر اور کنٹرول میں رہنا تھا۔ پولنگ اسٹیشن سے بوجوہ فوج کو دور رکھا گیا۔ عوامی لیگ نے تاریخ کی بدترین دھاندلی کی، یکطرفہ نتائج حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔ جنرل یحییٰ خان اور انکے حواری پُر امید کہ کوئی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور ہم اپنی شرائط اور اپنی مرضی کی حکومت بنا کر اپنے اقتدار کو دوام بخشیں گے‘‘۔ میجر جنرل خادم راجہ نے جو کچھ 1970ءکے حالات بارے لکھا، من و عن آج کے حالات کی عکاسی ہے۔ ایک اور مثال حاضر، 1980ءتک کراچی سیاست قومی جماعتوں کے قبضہ میں تھی۔ جماعت اسلامی اردو اسپیکنگ میں بہت مقبول اور پہلی ترجیح تھی۔1979/83کے بلدیاتی الیکشن جماعت اسلامی نے طمطراق سے جیتے۔ یہ صورتحال ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ الطاف حسین کی صورت میں ایک فاشسٹ کو پروموٹ کیا جو مہاجرحقوق کا علمبردار بن کر سامنے آیا۔ کراچی، حیدر آباد اور اردو بولنے والوں کی ہمدردیاں اپنے قبضہ استبداد میں لے لیں۔ 1985ءتا 2015ءکراچی حیدر آباد پر ایک قیامت برپا رہی، لوگوں کو زندہ جلایا گیا، بوری بند لاشیں، بھتہ، ڈاکہ، زور زبردستی معمول تھا۔ کراچی کو ہانگ کانگ کی طرز پر پاکستان سے علیحدہ کرنے کی تگ و دو شروع ہو گئی۔ امریکی اسلحہ کراچی میں گھر گھر پہنچ چکا تھا۔ بندہ پنجاب سے کراچی جاتے ڈرتا تھا۔ کاروباری اور صنعت کار اپنا کاروبار اور صنعت لاہور منتقل کرنے میں مستعد تھے۔ مافیا کا ایسا راج کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ایک’’میجر‘‘ کو رہا کروانے کیلئے کامیاب مذاکرات کرنا پڑے۔ جب بھی الیکشن ہوئے زور زبردستی، مرضی کے نتائج لئے۔ لگتا تھا شیخ مجیب الرحمن کی بد روح پھر سے کراچی حیدرآباد کو اپنی آماجگاہ بنا چکی ہے۔ الطاف حسین کے 30 سال آج بھی وطن کیلئے ایک بھیانک خواب ہیں۔

شیخ مجیب الرحمن اور الطاف حسین دونوں کو یکطرفہ سیاسی میدان میسر رہا، بڑے بزرگ سیاستدان تضحیک آمیز طریقہ سے زمیں بوس رہے۔ بِعینہ انہی خطوط پر پروجیکٹ عمران خان استوار کیا گیا۔ مارشل لا کے بغیر جنرل پاشا، جنرل ظہیر السلام، جنرل فیض حمید ریاستِ پاکستان کے ہر شعبہ پر حاوی نظر آئے۔ انکا نام بڑے سے بڑے ریاستی عہدیدار کو ڈرانے دھمکانے مرعوب رکھنے کیلئے کافی تھا۔ جنرل پاشا کو کریڈٹ کہ ٹھکرایا ہوا، مایوس عمران خان زندہ کرنے کا عزم کیا۔ بین، اسی طرز پر جس پر شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقارعلی بھٹو، الطاف حسین، نواز شریف وغیرہ ’’بطور ٹیسٹ ٹیوب سیاستدان‘‘ تیار کیے۔ طریقہ کار نیا نہیں تھا، 50 کی دہائی میں ایجاد کیا گیا، طریقہ واردات آج تک روبہ عمل ہے۔ وطنی بد نصیبی کہ شیخ مجیب الرحمن، الطاف حسین اور عمران ٹیسٹ ٹیوب عفریت نکلے۔ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی رہی کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہمارے استعمال میں ہیں جبکہ تینوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے زیر استعمال رکھا، تگنی کاناچ نچوایا۔یادش بخیر، عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے ورلڈ کپ، شوکت خانم، سحر انگیز مقبولیت، کرشماتی شخصیت بہت کچھ اپنے کھاتے میں ڈال چکا تھا۔ اگرچہ بین الاقوامی سطح پر دھاک بیٹھ چکی تھی۔ پاکستانی قوم نے موصوف کو سیاست کیلئے کبھی موزوں نہ سمجھا۔ جب 1997ءاور 2002ءکا الیکشن لڑا، بد ترین شکست سے دوچار رہا۔ پاشا، ظہیر اسلام، فیض حمید نے جب ٹھانی، تو اِس مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی۔ ’’پیشکش عمران‘‘، اسٹیبلشمنٹ کا مملکت کیخلاف گھناؤنا وارثابت ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ نے صرف یہ ثابت کرنا تھا ’’ہم جسے چاہیں بادشاہ بنا سکتے ہیں، جس سے چاہیں بادشاہت چھین سکتے ہیں ۔ ہم جس کو چاہیں عزت دیں ، جسکو چاہے ذلتسے دوچار رکھیں‘‘۔

آج اسٹیبلشمنٹ الجھن میں، گنجلک سیاست کی گتھیاں کیسے سلجھائے، اصل ڈائریکٹر، پروڈیوسر، ہدایتکار، اداکار آج تماشائی، مملکت کا تماشہ دیکھ رہے ہونگے، یہ جانتے ہوئے مزے میں کہ بڑی مشکل سے انکی الجھائی گتھیاں، اب کسی سے سلجھنے کی نہیں ہیں۔ مملکت دلدل میں دھنس چکی ہے، کیا نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟ کوئی ارادہ بھی ہے؟ میری مایوسی کہ ’’جو نظر آتا ہے لب پر آ سکتا نہیں‘‘۔ آج جن جن مدوں میں رات دن ایک ہے۔ ایک مد بھی ایسی نہیں کہ وطن کی فکر نظر آئے۔ ’’ادلے کا بدلہ‘‘، کا ایک لامتناہی سلسلہ، ایک عرصہ دراز سے طاقتوروں کی پہلی ترجیح ہے‘‘۔ پروجیکٹ عمران خان ’’2011 ءکا لگایا پودا، بڑی آبیاری کے بعد 2018 میں تناور درخت بن چکا ہے۔ بدقسمتی! درخت کا پھل زہر ملا نکلا کہ زہر آلود بیج بویا گیا، میٹھا پھل کیونکر دستیاب ہوتا؟ اب تو اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پکی پکائی تیار فصل کی فقط کٹائی کرنی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ