اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک انٹرا کورٹ اپیل میں سائفر کیس میں اب تک کیے گئے ٹرائل کو ختم کر دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے حکومت کی جانب سے سائفرکیس میں جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن معطل کر دئے ہیں۔ اور ان نوٹیفکیشن کے تحت کی جانے والی اب تک کی کارروائی کو بھی خلاف قانون قرار دے دیا ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو خوش آیند قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو انصاف کی فتح بھی قرار دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس فیصلے پر جس قدر مسرت کا اظہار کیا گیا ہے وہ قابل فہم بھی ہے اور ناقابل فہم بھی ہے کیونکہ جتنی خوشی منائی جا رہی ہے شائد اتنی خوشی کی بات نہیں ہے۔ یہ وقتی فتح ہے لیکن مکمل فتح نہیں ہوئی ہے۔
عدالت کی جانب سے جیل ٹرائل کو مکمل طورپر غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کے لیے جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس کو درست قرار نہیں دیا گیا۔
اس لیے کیا اس کے بعد سائفر کیس میں جیل ٹرائل نہیں ہوگا۔ اگر تو تحریک انصاف یہ سمجھ رہی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سائفر کیس کا جیل ٹرائل نہیں ہوگا تو یقینا اس کو فتح قرار دیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر چند دن بعد ٹیکنیکل اور قانونی پیچیدگیوں کو دور کر کے دوبارہ جیل ٹرائل شروع ہو جائے گا تو ہم اسے کیسے فتح قرار دے سکتے ہیں۔ اگر بات دوبارہ جیل ٹرائل پر ہی پہنچ جانی ہے تو پھر کیا فتح۔
اسی طرح اس اپیل کے نتیجے میں کیس ختم نہیں ہوا۔ پھر کیا فتح اور کیا جشن۔ اگر کیس اپنی جگہ موجود ہے۔ ٹرائل نے چند دن بعد قانونی ٹیکنیکل پیچیدگیاں دور کرنے کے بعد دوبارہ شروع ہوجانا ہے تو پھر حاصل کیا ہوا ہے۔ کیا عدالت نے سائفر کیس کو ختم کر دیا ہے۔
کیا عدالت نے سائفر کیس سے چیئرمین تحریک انصاف کو ڈس چارج کر دیا ہے۔ جب ایسا کچھ نہیں ہوا تو مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ حاصل کیا ہوا ہے۔
چند دن کی خوشی پھر اندھیری رات۔ مقدمہ اپنی جگہ موجود ہے، ٹرائل دوبارہ شروع ہو جانا ہے۔ پھر کیا ہو گیا ہے۔ اسی لیے دوست تحریک انصاف کو جشن فتح سے پہلے مشورہ دے رہے تھے کہ پہلے فیصلہ پڑھ تو لیں۔
تحریک انصاف نے اس اپیل میں مانیٹرنگ جج کی تعیناتی کو بھی چیلنج کیا تھا۔ تحریک انصاف کی بہت کوشش تھی کہ کم از کم جج ہی تبدیل کروالیں۔ انھوں نے اس کے لیے بہت زور بھی لگایا لیکن اس اپیل میں ان کی یہ بات نہیں مانی گئی۔ عدالت نے نہ صرف جج کی تعیناتی کو درست قرار دیا ہے بلکہ جج کی تبدیلی کی درخواست بھی قبول نہیں کی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ وہی جج سماعت جاری رکھیں گے۔ اس لیے تحریک انصاف کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ وہی جج وہی سماعت وہی عدالت وہی ملزم۔ وہی مدعی۔ اس لیے اپیل منظور بھی ہوئی ہے لیکن کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے۔اس کو کتنی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ سائفر کیس کا اس اپیل کی منظوری کے بعد کیا مستقبل۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس اپیل کی منظوری سے اس کے مستقبل میں کوئی فرق آیا ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ اس اپیل کی منظوری سے چیئرمین تحریک انصاف کی سائفر کیس کی مشکلات میں کوئی ذرہ برابر بھی کمی ہو گی۔
مشکلات وہی کھڑی ہیں اور کھڑی نظر آرہی ہیں۔ کیا اس کے نتیجے میں وہ جیل سے نکل آئیں گے؟ نہیں۔ کیا انھیں ضمانت مل جائے گی؟ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کچھ تکنیکی معاملات کی درستگی کو فتح نہیں قرار دیا جا سکتا۔
اگر چیئرمین تحریک انصاف اس موقع پر ان تکنیکی خرابیوں کی نشاندہی نہ کرتے اور ٹرائل کے مکمل ہونے کے بعد اپیل میں ان خرابیوں کی نشاندہی کرتے تو یہ ممکن تھا کہ اپیل میں ٹرائل ختم ہو کر دوبارہ ٹرائل کا حکم ہو جاتا یا سزا ختم ہو جاتی۔ اس صورت میں چیئرمین تحریک انصاف کو ایک بڑا ریلیف ملنے کا امکان تھا۔ سزا ختم ہو جاتی تو یقینا ایک بڑی فتح قرار دی جا سکتی تھی۔ لیکن اب اس کو اس موقع پر فتح نہیں قرار دیا جا سکتا۔
جیل کے اندر اوپن ٹرائل ہو یا ان کیمرہ ٹرائل اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر ٹرائل جیل کے اندر ہے تو اس کا اوپن ہونا بھی کوئی خاص معنی نہیں رکھتا۔ یقینا محدود لوگ ہی جیل کے اندر لگی عدالت میں جا سکیں گے۔
محدود لوگوں کے جانے سے چیئرمین تحریک انصاف کے سیاسی مقاصد پورے نہیں ہوتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں روز جیل سے نکال کر عدالت میں پیش کیا جائے وہ وہاں میڈیا سے بات کریں ان کے جیل سے نکلنے اور واپس جانے تک کیس کی میڈیا کوریج ہو جو جیل کے اندر ٹرائل سے ممکن نہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف کے قانونی مسائل حل نہیں ہو رہے۔ ایک سیاسی بیانیہ بنایا جا رہاہے کہ ان پر دو سو سے زائد مقدمات ہیں۔ لیکن وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ انھوں نے دو سے زائد بار ملک کا قانون توڑا ہے تو ان پر دو سو سے زائد مقدمات بنے ہیں۔
اگر وہ اتنی بار قانون نہ توڑتے تو ان پر اتنے مقدمات نہ بنتے۔ ان کے مقابلے میں سیاسی قائدین پر جب مشکل آئی ہے تو انھوں نے کوشش کی ہے کہ وہ کم سے کم قانون کی گرفت میں آئیں۔
ان کی کوشش رہی ہے کہ اپنی جدو جہد کو قانون کے دائرے میں رکھیں تا کہ مخالف قوتوں کو ان کے خلاف حملہ کرنے کا کم سے کم موقع ملے۔ اس کے مقابلے میں چیئرمین تحریک انصاف نے بار بار قانون توڑ کر خود اپنے سیاسی اور دیگر مخالفین کو موقع دیا ہے کہ وہ انھیں آسانی سے پکڑ لیں۔
تحریک انصاف کی اپنے چیئرمین کو ریڈ لائن بنانے کی حکمت عملی بھی مکمل ناکام رہی ہے۔ زمان پارک کے محاصرے بھی ناکام رہے ہیں۔ آج اگر دیکھیں تو یہ سب ناکام حکمت عملی کے علاوہ کچھ نہیں نظر آتا۔ سائفر سے ملنے والے سیاسی فوائد اور اسے حاصل ہونے والے نقصانات کا اگر جائزہ لیا جائے تو آج فائدہ نظر نہیں آتا نقصان ہی نقصان نظر آتا ہے۔
ان کے سیاسی مخالفین نے اس سائفر کو ان کے گلے کا پھندا بنا لیا ہے۔ سائفر سے ملنے والی مقبولیت کا اگر کوئی سیاسی فائدہ نہیں مل سکا تو یہ ایک ناکام حکمت عملی تھی۔ سیاست میں ایسی عارضی کامیابیاں کوئی بڑی کامیابی نہیں سمجھی جاتی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس