عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان میں امریکی سفارت کار، ڈونلڈ بلوم کے درمیان ہونیوالی حالیہ ملاقات کی فوری مذمت کرتے ہوئے اسے ’’پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت‘‘ قرار دیا۔ لیکن جب صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے گیارہ اراکین کانگریس نے خط لکھا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ہونیوالی انکوائری تک اس کی سکیورٹی امداد معطل کردی جائے تو پی ٹی آئی کی طرف سے اس قسم کا غصیلا ردعمل دیکھنے میں نہ آیا۔ اس خط میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی زد میں آنیوالوں میں عمران خان کا نام بطور خاص شامل ہے۔
درحقیقت اگر امریکی سفارت کار ملک، جہاں وہ تعینات ہے، کی کسی اہم سیاسی شخصیت سے ملتا ہے یا امریکی اراکین کانگریس کسی ملک میں انسانی حقوق کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں تو اس میں کچھ بھی غیر معمولی بات نہیں۔ اقوام کے درمیان خارجہ تعلقات کیلئے سفارت کاروں کو ہر قسم کے سیاست دانوں اور عوامی شخصیات سے ملاقاتیں کرنا ہوتی ہیں۔ ڈونلڈ بلوم کی نواز شریف کے ساتھ ملاقات سے امریکہ کی پاکستان کی سیاست میں کسی ترجیح کا اظہار نہیں ہوتا، جس طرح دیگر پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کسی کی حمایت کی سند نہ تھیں۔ مزید یہ کہ امریکی خارجہ پالیسی اراکین کانگریس کے خطوط نہیں بلکہ حکومت کی ایگزیکٹو برانچ میں صدر اور ان کی ٹیم چلاتی ہے۔
گیارہ اراکین کانگریس کا خط اُن کے خیالات کے اظہار سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اسے پالیسی یا بجٹ فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگرچہ پی ٹی آئی الزام لگاتی رہی ہے کہ امریکہ نے اس کے لیڈر عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا تھا لیکن یہ امریکہ میں پبلک ریلیشن فرموں کے ذریعے اپنے حق میں لابنگ کراتی ہے۔ مذکورہ خط پر جن اراکین کانگریس کے دستخط ہیں، وہ پاکستان کے بارے میں کوئی علم رکھنے یا اس میں دلچسپی لینے کیلئے نہیں جانے جاتے۔ اُنھوں نے غالباً لابنگ کے زیر اثر دستخط کیے ہیں۔
گزشتہ برس سرکاری دستاویزات سے پتہ چلا کہ تحریک انصاف نے ایک لابنگ فرم فنٹن ایرلاک کی خدمات پچیس ہزار ڈالر ماہانہ کے عوض حاصل کی تھیں۔ رواں برس مارچ میں تحریک انصاف کے امریکی حکومت اور میڈیا کے ساتھ روابط بحال کرانے کیلئے واشنگٹن سے تعلق رکھنے والی ایک فرم پرایا کنسلٹنٹس (Praia Consultants) کے ساتھ اس کا معاہدہ منظرعام پر آیا۔ اراکین کانگریس کو عطیات اور ووٹوں کی مسلسل ضرورت رہتی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لابنگ کرنے والے اُنھیں ایسے معاملات پر بات کرنے پر قائل کرلیتے ہیں جو اُن کے کلائنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اراکین کانگریس جنھوں نے حالیہ دنوں سیکرٹری آف اسٹیٹ، اینٹونی بلنکن کو تحریک انصاف کے اراکین اور رہنماؤں، بشمول عمران خان کی گرفتاریوں کے بارے میں خط لکھاہے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ان کے انتخابی حلقوں میں یا تو پاکستانی نژاد امریکی ووٹر ہیں یا پھر انھیں کمیونٹی کی طرف سے مالی عطیات موصول ہوتے ہیں۔
تحریک انصاف کی موجودہ لابنگ پر دو سے تین لاکھ ڈالر سالانہ خرچ آتاہے۔ امریکی لابنگ بزنس کا سالانہ حجم چار بلین ڈالر ہے۔ اس کے سامنے یہ رقم تو کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اس لیے نہیں لگتا کہ اس کے ذریعے امریکی پالیسی تبدیل کی جا سکتی ہے۔ ہاں، پاکستان میں پارٹی اور اس کے حامیوں کی کچھ امیدیں بندھا کر اُنھیں مایوس ہونے سے بچا سکتی ہے۔ اب وہ یقین کرنا شروع کرگئے ہوں گے کہ امریکی مداخلت ان کے محبوب قائد کو جیل سے رہا کرا سکتی ہے۔
میرا نہیں خیال کہ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں پیش آنے والے سیاسی واقعات میں امریکہ نے کوئی کردار ادا کیا تھا، اور مجھے یقین ہے کہ اُسے رواں برس بھی کوئی کردار ادا کرنے میں ہرگز دلچسپی نہیں ہو گی۔ سفارت کار بلوم کی نواز شریف سے ملاقات اور امریکی اراکین کانگریس کا خط پاکستانیوں کیلئے اہم اس لیے ہیں، کیوںکہ وہ سازش کی تھیوریوں پر یقین کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ پاکستان میں ہونے والے اہم فیصلوں پر دراصل امریکہ کا کنٹرول ہے۔ تقریباً ہر بڑی پاکستانی سیاسی جماعت نے کسی نہ کسی موقع پر سازشی تھیوری کو پھیلایا ہے۔ نتیجتاً، پاکستانیوں کیلئے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ وہ ملک کے پریشان کن سیاسی حالات میں امریکی اشارے تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستانی سیاست دان امریکہ مخالف بیان بازی میں مشغول رہتے ہیں جبکہ نجی طور پر امریکیوں کو اپنے دوستانہ رویے کا یقین دلاتے ہیں۔ہر سیاست دان یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ روابط میں عملیت پسندی کا مظاہرہ ہی حقیقت پسندی ہے۔ امریکہ ایک سپر پاور ہے اور عالمی معاملات میں بے حد اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ یہ برسوں سے پاکستان کو سب سے زیادہ غیر ملکی امداد فراہم کرنے والا ملک، ایک اہم سکیورٹی شراکت داراور ملک کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔اگر پاکستان کے رہنما چاہتے تو اپنے عوام کے سامنے بین الاقوامی معاملات کی پیچیدگیوں کی وضاحت کر سکتے تھے لیکن وہ ایک جذباتی قوم کے جذبات سے کھیلنا آسان سمجھتے ہیں۔ سازشی نظریات کا شکار افراد اپنی بدحالی کے بیرونی اسباب تلاش کرنے کیلئے ہمیشہ بے چین رہتے ہیں۔ امریکہ مخالف بیان بازی خود احتسابی اور پالیسی کی ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے بچنے کیلئے ایک افسوس ناک لیکن مؤثر ذریعہ ہے۔
اگر کوئی اس وقت حقیقت کا سامنا کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان اب امریکی اقتصادی یا فوجی امداد کا بڑا وصول کنندہ نہیں رہا۔ افغانستان اور عسکریت پسندی کے بارے میں پاکستان کی پالیسیوں پر برسوں کے اختلاف کے نتیجے میں اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ نیز ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما، اسامہ بن لادن کے پائے جانے سے بھی پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کو نقصان ہوا۔ امریکی اب دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے حجم اور باہمی طور پر طے شدہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس تعاون کے پیرا میٹرز کے تناسب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔ پاکستان اب ’ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی‘ نہیں رہا جیسا کہ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں تھا۔ کوئی سوویت مخالف جہاد نہیں ہو رہا، جیسا کہ 1980 کی دہائی میں تھا، یا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، جیسا کہ 2001 سے 2011 تک لڑی گئی جس نے پاکستان کو فرنٹ لائن ریاست بنا دیا تھا۔ چین کو محدود کرنے کی انڈو پیسیفک حکمت عملی کے تحت اب امریکہ کا شراکت دار بھارت ہے۔ 2022 میں شائع ہونیوالی امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی میں ایک بار بھی پاکستان کا ذکر نہیں کیا گیا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ