انتخابات کے یوم انعقاد 8 فروری 2024میں اب میرے حساب کے مطابق 77 دن رہ گئے ہیں۔ الیکشن پروگرام 54 دن کا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کے بعد الیکشن کمیشن کو سات دن کے اندر اندر الیکشن پروگرام کا اعلان کردینا چاہئے۔ امیدہے کہ آج کل میں اس پروگرام کی تفصیلات آجائیں کیونکہ اب حکم سپریم کورٹ کا ہے۔
سیاسی پارٹیاں اس طرح تو حرکت میں نہیں آئیں جیسے ماضی میں انتخابات کے اعلان کے بعد- 1990- 1988- 1985- 1977- 1970 2013- 2008- 2002- 1996- 1993- 2018 میں آتی رہی ہیں۔ لیکن کہیں کہیں جلسے ہورہے ہیں۔ جوڑ توڑ جاری ہے۔ انتخابیے پرانی پارٹیاں چھوڑ کر نئی پارٹیوں میں شامل ہورہے ہیں۔ بلوچستان میں اس کے الٹ ہے۔ وہاں نئی پارٹیاں چھوڑ کر تین دہائیاں پرانی پارٹی ن لیگ میں شمولیت ہوئی ہے۔ بہرحال ایک سیاسی عمل کسی حد تک شروع ہوگیا ہے۔ پاکستان گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے جس مالی، اقتصادی، سماجی، اخلاقی کرب سے گزر رہا ہے۔ اس کا مداوا تو یہی ہے کہ واہگہ سے گوادر تک ایک بھرپور سیاسی عمل شروع ہو۔ سیاسی عمل سے مراد وہ ترتیب ہوتی ہے،جس کے تحت سیاسی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادتیں اپنے ذیلی عہدیداروں سے رابطہ تیز کرتی ہیں۔ عہدیدار اپنے اپنے علاقے کے کارکنوں سے باقاعدہ منظّم طریقے سے ملنا شروع کردیتے ہیں۔
سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والوں کو یاد ہوں گی۔ لاہور میں دولتانہ ہاؤس، مکلیگن روڈ پر نوابزادہ نصر اللہ خان کی رہائش گاہ، ملتان میں وائٹ ہاؤس، کراچی میں لکھم ہاؤس، 70 کلفٹن،سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی جس کوٹھی میں قیام کرتے تھے۔ پی ای سی ایچ ایس میں جہاں شیخ مجیب الرحمن ٹھہرتے تھے، نشتر پارک کے قریب جی ایم سید ہاؤس،پشاور میں خان عبدالولی خان کی رہائش گاہ ، کوئٹہ میں خان عبدالصمد خان اچکزئی، یحییٰ بختیار، نواب اکبر بگٹی کی قیام گاہیں۔ کراچی میں عابد زبیری، محمود الحق عثمانی کے دولت کدے ۔ کئی ہوٹلوں میں بھی سیاسی محفلیں جمتی تھیں۔1980 کی دہائی میں 90کراچی میں سب سے زیادہ سرگرم ہوگیا۔ ادارہ نور حق لاہور میں اچھرہ، جماعت اسلامی کے مراکز تھے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں ہمیشہ سب سے منظّم رہی ہے۔ اسکے انتخابات بھی باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں۔
یہ سیاسی سرگرمی صرف ایک ہلّا گلا نہیں ہوتی بلکہ شعور اور احساس کا پھیلاؤ ہوتی ہے۔ جب مقامی عہدیدار کارکنوں سے ملتے ہیں تو کارکن انہیں عوام کے مزاج سے آگاہ کرتے ہیں۔ سیاسی کارکن زیادہ تر لالو کھیت، کورنگی، اورنگی، ملیر، فیڈرل بی ایریا، بلدیہ ٹاؤن، کیماڑی، جیسی گنجان آباد بستیوں سے آتے ہیں۔ لاہور میں انار کلی، بھاٹی دروازے، شالامار، کرشن نگر، ساندہ، اچھرہ جیسے کثیر آبادیوں والے محلوں سے ہوتے تھے۔ ہوتے ہیں۔ یہی حال پشاور، کوئٹہ، ملتان، سیالکوٹ، حیدر آباد، لاڑکانہ، فیصل آباد، جھنگ، بھکر اور لیہ میں ہوتا ہے۔ مقامی عہدیدار کارکنوں سے باخبر ہو کر اپنی مرکزی قیادت کو عوام کے موڈ سے آشنا کرتے ہیں۔ کچن کابینہ یا اب کئی مارشل لاؤں کے بعد اسے کور کمیٹی کہا جاتا ہے۔ وہ پارٹی سربراہ کو عوام کے محسوسات سے باخبر کرتی ہے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد انتخابیوں کا سلسلہ جب سے شروع ہوا ہے۔ پھر پارٹی سربراہوں کی عوام سے مزاج آشنائی ضروری نہیں رہی۔ ہوا کا رُخ انتخابیے متعین کرتے ہیں۔ اس طرح سیاسی عمل محدود ہوتا رہا ۔ سیاسی قوتیں کمزور ہوتی رہیں۔ غیر سیاسی طاقتیں مقتدر ہوتی گئیں۔ جمہوریت غیر جمہوری ہوتی گئی۔ اس عمل کے نتائج ہم سب اقتصادی بحرانوں، اخلاقی گراوٹ، مالی کرپشن، مہنگائی، بے ادبی، حرف کی بے توقیری، پرنٹ کی ناقدری میں دیکھ رہے ہیں۔
ان تمام بیماریوں کی ایک ہی دوا ہے۔ بھرپور، منظّم سیاسی عمل۔ جس سے سیاسی شعور بھی بڑھے گا۔ سماجی احساس بھی۔ حرف و دانش سے رشتہ پھر استوار ہوگا۔ تعلیم کاروبار نہیں رہے گی۔ منظّم سیاسی کارکن پھر سیاست کا رُخ بھی متعین کرتے ہیں۔ کوئی بھی پارٹی ہو۔ دائیں بائیں کی۔ کوئی زبان بولتی ہو۔ کسی علاقے کی بھی ہو۔ وہ قابل احترام ہے۔ اس کے سیاسی کارکن اسکی جان ہیں۔ وہ سب قابل قدر ہیں۔ سیاسی پارٹیاں خود کبھی ایک دوسرے کے کارکنوں کو نہیں لڑواتیں۔ عام طور پر غیر سیاسی قوتیں یہ سازشیں کرتی ہیں۔
اس وقت عام پاکستانیوں کے سیاسی شعور کا گراف ماشاء اللہ بہت بلند ہے۔ اپنے نیک و بد میں امتیاز تاریخ میںپہلی بار کررہا ہے۔ ملکی مفاد پہلی بار اس کے سامنے واضح ہوکر آرہا ہے۔ اپنے مستقبل کیلئے لائحہ عمل اس کے سامنے پہلی بار کھل کر آرہا ہے۔ اس میں یقینا ًسوشل میڈیا کا کمال ہے۔ پہلے پرنٹ میڈیا کے اداریے، کالم۔ یہ قومی فریضہ انجام دیتے تھے۔ میرے تو ذہن میں آرہا ہے کہ کسی یونیورسٹی کو برقی میڈیا کے 20 سال(2002سے 2022) اور پرنٹ میڈیا کے 20 سال (1981سے 2000) پر تحقیق کروانی چاہئے کہ ملک میں سیاسی، سماجی،اخلاقی شعور، دیانتداری، صدق گوئی کن 20 سال میں کتنی رہی؟
اب ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہمیں پاکستان کی عظمت رفتہ واپس لانی ہے۔ اقتصادی بھی، سیاسی بھی۔ سماجی، علمی، زرعی، صنعتی، فنّی، ادبی، فکری وقار کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ ہماری عظیم مملکت کو نشاۃ ثانیہ Renaissanceکی ضرورت ہے۔ یہ چابی قومی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے۔ چاہے ہم انہیں موروثی کہیں۔ تمام بحرانوں کا ذمہ دار کہیں۔ لیکن یہ تبدیلی ان کے ذریعے ہی آنی چاہئے۔ ہمیں ان کو ان کا قومی فریضہ یاد دلانا ہے۔ عام انتخابات ہر سیاسی پارٹی کیلئے اہم ہوتے ہیں۔ اس لیے ساری سیاسی پارٹیوں کو منظّم سیاسی عمل کا پروگرام تشکیل دینا چاہئے۔ اب تو سوشل میڈیا، واٹس ایپ کے ذریعے تیز ترین رابطے ممکن ہیں۔ پہلے خط و کتابت یا پارٹی عہدیداروں کے ذریعے رابطے ہوتے تھے۔ میری دلی گزارش ہے کہ ساری سیاسی پارٹیاں پہلے اپنی ضلعی تنظیم کو حرکت میں لائیں۔ سارے اضلاع میں ایک ایک روزہ پارٹی کنونشن منعقد کریں۔ کارکنوں کو کھل کر اپنا موقف بیان کرنے دیں۔ یہاں سے صوبائی کنوینشنوں کیلئے مندوب منتخب کیے جائیں۔ ایک دو ہفتے بعد صوبائی کنوینشنوں کا انعقاد ہو۔ یہاں سے قومی کنونشن کیلئے مندوب منتخب ہوں۔ دسمبر کے آخر میں یا جنوری کے پہلے ہفتے میں جہاں بھی پارٹی کا مرکزی دفتر ہے قومی کنوینشن منعقد ہوں۔ اس طرح 2024 کا آغاز ملک میں بھرپور اور منظّم سیاسی عمل سے ہوگا۔ اندازہ کیجئے کہ اس طرح 8 فروری کے انتخابات کتنے با معنی ہوجائیں گے اور ملک کی اکثریت کی سیاسی عمل میں متحرک شرکت سے بے یقینی کا بتدریج خاتمہ ہوجائے گا۔ واہگہ سے گوادر تک ہر شہر قصبے کی فضائیں سیاسی ولولے سے معمور ہوں گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ