حاسدینِ اقبالؒ کے الزامات : تحریر ذوالفقار احمد چیمہ


زندہ معاشرے اپنے عظیم محسنوں پر بے جا اور بے بنیاد تنقید سے گریز کرتے ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں کوئی بات کرنی ہو تو ان کے پائے کا کوئی شخص کرے۔ جوہڑ کو بحرالکاہل پر اور مٹی کی ٹبی کو ہمالیہ پر تنقید کا حق کیسے مل سکتا ہے! ہر بلند مرتبہ شخص کی طرح مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال کے بلند مقام کے باعث ان کے حاسدین بھی ہیں۔

ان کے حاسدین وناقدین میں زیادہ تر ایسے ہیں جو اس وجہ سے ان کے مخالف ہیں کہ علامہ اقبال اتنے بڑے شاعر ہو کر اللہ اور رسولسے راہنمائی لیتے ہیں، توحیدِ الہی اور عشقِ رسالت مآب ان کی شاعری کے بہت نمایاں پہلوہیں، اگر وہ صرف گل وبلبل کی شاعری کرتے، شعروں میں صرف عورتوں کے اعضا کی مبالغہ آمیز تحسین کرتے رہتے اور اس طرح کے افکار پیش نہ کرتے کہ پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی یا کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔

تو یہ لوگ ان کی شان میں زمین وآسمان کے قلابے ملادیتے۔علامہ اقبال پر بے جا تنقید کرنے والوں اور ان پر جھوٹے بہتان لگانے والوں میں تین قسم کے لوگ یعنی دھرئیے اور قیامِ پاکستان کے مخالف سب سے آگے ہیں۔

دنیا کے کسی اور شاعر نے اتنے ملکوں کے اتنے انسانوں کو inspire نہیں کیا جتنا اقبال نے کیا ہے۔ پوری دنیائے اسلام کو آزادی، حریت، حمیت، غیرت اور خودداری کے جذبوں سے سرشار کرنے پر وہ تمام مسلم ممالک میں خصوصا پاک وہند، ایران، سینٹرل ایشیا اور ترکی میں انتہائی عقیدت اور احترام کے مقام پر فائز ہیں۔

اس لیے ان کا یہ ارفع مقام کم کرنے کی کوشش تو چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے مگر کچھ لوگ علامہ کو متنازعہ بنانے کے لیے ان پر بے بنیاد بہتان لگاتے رہتے ہیں، جنھیں دین بیزار لوگ خوب اچھالتے ہیں۔

یہ لوگ علامہ کی لاہور سے تا بخاکِ بخارا وسمرقند دلوں کو ولولہ تازہ دینے والی شاعری کا تو کبھی ذکر نہیں کریں گے مگر ان کی لڑکپن میں کہی گئی وہ غزلیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کریں گے جنھیں اقبال نے خود اپنے کلام میں شامل کرنے کے بھی قابل نہیںسمجھا۔ اس کے علاوہ یہ لوگ عطیہ فیضی اور ویگاناسٹ کے نام علامہ اقبال کے خطوط میں تحریف کرتے ہیں اور ان پر مے نوشی کا الزام لگاتے ہیں۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک شخص نے (وہ اس قابل نہیں کہ اس کا نام لکھا جائے) اسی طرح شوشہ چھوڑا کہ علامہ اقبال نے ویگاناسٹ (وہ جرمن خاتون جس سے علامہ اقبال ہائیڈل برگ میں قیام کے دوران جرمن زبان سیکھتے رہے) کے نام خط لکھے تھے کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں اس ملک پر لعنت بھیج کر یورپ آجاں اور پھر سے شراب نوشی میں پناہ حاصل کروں ساتھ ہی یہ لکھا کہ یہ خط ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب زندہ رود (علامہ اقبال کی سوانح عمری پر سب سے ضخیم کتاب) میں موجود ہے۔

میں نے فورا زندہ رود نکالی، خط تو موجود تھے مگر وہ فقرے جن میں ملک پر لعنت بھیجنے اور شراب میں پناہ ڈھونڈنے کا ذکر ہے بالکل نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنی طرف سے ڈال کر خباثت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جہاں تک خطوط کا تعلق ہے۔ یہ ایک پڑھے لکھے شائستہ نوجوان کے دوستانہ خطوط ہیں جس میں کوئی غیر اخلاقی بات نہیں ہے۔

ویگے ناسٹ کا 1964 میں انتقال ہوا۔ اس سے پاکستانی سفارت خانے نے رابطہ کرکے خطوط مانگے تو اس نے اس شرط پر دے دیے کہ یہ مسلم دنیا کے ایک عظیم شاعر اور فلسفی کے خطوط ہیں جو کسی لائبریری میں رکھوائے جائیں۔ یہ درست ہے کہ علامہ رومانوی غزلیں کہتے رہے ہیں مگر صرف اٹھائیس برس کی عمر تک۔ اس کے بعد جب انھوں نے اسلام کی نشاِ ثانیہ کا پرچم تھام کر ملی شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ نوجوانی کی بے مقصد شاعری پر افسوس بھی کرتے رہے۔

ڈاکٹر جاوید اقبال کا ذکر چھڑا ہے تو بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹرجاوید اقبال نے علامہ اقبال پر لگائے جانے والے بہتانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکٹھا کیا اور انھیں (کئی غیر ضروری الزامات سمیت) اپنی کتاب زندہ رود میں شامل کردیا ہے۔ مے نوشی کے بہتان کے بارے میں زندہ رود کے چند اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

جہاں تک مے نوشی کی تہمت کا تعلق ہے تحقیق کے باوجود ایسی کوئی شہادت نہیں جس سے یہ الزام ثابت ہوسکے۔ لاہور میں اقبال کی طالب علمی کے عہد میں غلام بھیک نیرنگ نے ان کے حالات قلمبند کیے۔ لیکن ان میں شراب نوشی کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ ابتدائی پانچ سالہ دورِ ملازمت سے متعلق سید تقی شاہ، سر عبدالقادر اور محمد دین فوق کے بیانات یا تحریروں میں بھی اقبال کی میخوری کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ قیام یورپ کے دوران سر عبدالقادر اور عطیہ فیضی کا اقبال سے خاصا میل جول تھا۔

راقم کے روابط عطیہ فیضی کے ساتھ ان کی وفات تک قائم رہے اور کراچی میں کئی بار ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اس سلسلے میں راقم کے استفسار پر عطیہ فیضی نے بتایا کہ انھوں نے یورپ میں کسی موقع پر بھی اقبال کو شراب پیتے نہیں دیکھا۔ یورپ سے واپسی پر مولوی احمد دین اور نواب سر ذوالفقار علی خان نے جو مرزا جلال الدین کی طرح اقبال کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے، ان کے سوانخ حیات لکھے، لیکن کہیں بھی انھوں نے اقبال کی مے خوری کا ذکر نہیں کیا۔

راقم کی خط وکتابت اقبال کے اس دور کے ایک اور بے تکلف دوست سردار مرا سنگھ شیر گل سے بھی رہی ہے، وہ بھی یہی تحریر کرتے ہیں کہ اقبال نے ان کے سامنے کبھی شراب نہیں پی تھی۔ اقبال کسی مقدمے کے سلسلے میں غالبا 1912 مین کیمبل پور گئے، وہاں ان کے ایک وکیل دوست نے دعوت کا اہتمام کیا جس میں چند مقامی انگریز حکام بھی مدعو تھے اور شراب کا بندوبست بھی کیا گیا تھا۔

اس دعوت میں ساڑھے تیرہ سالہ شیخ اعجاز احمد بھی موجود تھے جو ان دنوں اپنے والد کے پاس کیمبل پور گئے ہوئے تھے اور جنھیں اقبال اپنے ساتھ اس دعوت میں لے گئے تھے۔ ان کے بیان کے مطابق جب ڈاکٹر اقبال کو ان کے دوست نے شراب کا جام پیش کیا اور پینے پر اصرار کیا تو انھوں نے فرمایا کہ جس شے کو میں نے یورپ میں رہ کر کبھی منہ نہ لگایا، اسے اب کیا پیوں گا۔ انارکلی والے مکان یا میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں اقبال کی دو بھتیجیاں بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں، اور ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ان کے مشاہدے میں یا سننے میں کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں آیا جس سے یہ شبہ ہوسکتا کہ وہ شراب کا شوق کرتے تھے۔

اقبال کے جواں سال عقیدت مندوں میں سے ایک خواجہ عبدالوحید تھے، جو اقبال کی یورپ کی واپسی کے فورا بعد سے انھیں جانتے اور آخر عمر تک ان کے ارادت مند رہے۔

وہ اپنے مضمون میری ذاتی ڈائری میں ذکر اقبال میں تحریر کرتے ہیں کہ انھوں نے اقبال کو شروع سے لے کر ان کی وفات تک (تقریبا تیس برس) حقہ پیتے تو دیکھا لیکن کبھی یہ نہ سنا کہ انھوں نے اس سارے عرصے میں شراب کو ہاتھ لگایا ہو۔ اسی طرح جاوید منزل میں قیام کے دوران میں جہاں راقم سنِ تمیز تک پہنچا، اقبال کو اس نے کبھی شراب پیتے نہیں دیکھا بلکہ راقم اس سلسلے میں علی بخش سے اقبال کی برہمی کے ایک واقعے کا شاہد ہے، واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن کوئی سکھ علامہ اقبال سے ملنے کے لیے آیا ،اس وقت اقبال کے پاس عرب قاری بھی بیٹھے ہوئے تھے، جو انھیں قرآن مجید خوش الحانی سے پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔

علی بخش نے سکھ کو عقیدت مند سمجھتے ہوئے علامہ اقبال تک پہنچادیا۔ کچھ دیر وہ ان کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ پھر ان کے کمرے سے نکل کر باہر آیا اور علی بخش سے کہا کہ تانگے میں رکھی ہوئی بوتل اور گلاس اسے لا دے۔ علی بخش نے حکم کی تعمیل کی اور سکھ برآمدے میں کرسی کے سامنے میز لگا کر بیٹھ گیااور بے دھڑک شراب پینے میں مصروف ہوگیا۔ بیس سے بچیس منٹ گزرنے پر علامہ نے علی بخش کو بلوا کر پوچھا کیا سردار صاحب چلے گئے؟ علی بخش نے جواب دیا کہ نہیں، وہ تو برآمدے میں بیٹھے شراب پی رہے ہیں۔ اس پر علامہ اقبال کا چہرہ سرخ ہوگیا۔

بیماری کی حالت میں وہ اک دم بستر سے اٹھے اور باہر نکل پڑے۔ عرب قاری بھی ان کے پیچھے بھاگا۔ اقبال نے آتے ہی سکھ کو گریبان سے پکڑنے کی کوشش کی اور اسی کشمکش میں شراب کی بوتل فرش پر گر کر چکنا چور ہوگئی۔ گھر میں شور سن کر راقم بھی بھاگتا ہوا موقعہ پر پہنچا۔ سکھ انھیں انتہائی غصے کی حالت میں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا اور تانگے میں سوار ہوکر رفو چکر ہوگیا، لیکن اقبال غصے سے کانپ رہے تھے اور عرب قاری نے انھیں تھام رکھا تھا۔

راقم نے انھیں زندگی میں پہلی بار علی بخش کو جھڑکیاں دیتے ہوئے سنا۔ برآمدے کے سارے فرش کو اسی وقت دھلوایا گیا اور علامہ اقبال نے دو تین روز تک علی بخش سے بات نہ کی بلکہ اسے ان کے سامنے آنے کی اجازت نہ تھی بالآخر چوہدری محمد حسین کی کوششوں سے اسے معافی ملی۔ تو یہ ہے حقیقت مفکر پاکستان حکیم الامت پر لگائے جانے والے بیہودہ الزامات کی۔ برصغیر کے ایک جلیل القدر عالمِ دین کہا کرتے تھے کہ علامہ اقبال اپنے تمام ناقدین سے زیادہ باکردار ہیں اور ملت اسلامیہ کا پورے عالمِ اسلام میں سب سے زیادہ درد رکھنے والے مفکرہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس