ویوین سلور۔اسرائیل میں فلسطینیوں کی آواز خاموش ہوگئی : تحریر افتخار گیلانی


ایک دہائی قبل، جب میں بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ اسرائیل اور فلسطین کے دورہ پر تھا کہ غزہ کی سرحد سے ملحق اسرائیل کے شہر نگار سدیرات میں فلم اسٹوڈیوز کو دیکھنے کے بعدہماری گائیڈ سڑک اور گلیوں کے کنارے غزہ سے آنے والے راکٹوں سے بچاؤ کیلئے بنائے گئے حفاظتی بینکر دکھا رہی تھی، اتنے میں پولیس اہلکاروں کے حلقہ میں ایک معمر اسرائیلی خاتون پر ہماری نظر پڑگئی جو عبرانی زبان میں خطاب کررہی تھی۔ چند گز کی دوری پر ایک گروہ اس معمر خاتون کی طرف اشارہ کرکے، فقرہ کس کے اس کو لعن طعن کا نشانہ بنا رہا تھا۔ گائیڈ تو ہمیں اس تماشہ سے بچا کر نکالنا چاہتی تھی کہ صحافیوں کو دیکھ کر یہ خاتون پولیس اہلکاروں کو دھکا دیتے ہوئے ان کے حلقہ سے نکل کر انگریزی میں مخاطب ہوکر کہنے لگی اسرائیلی حکومت نے غزہ میں فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنائی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حفاظتی بینکر ان کی حفاظت کریں گے۔ کسی دوسرے کو عذاب میں مبتلا کرکے آپ کیسے سکون سے رہ سکیں گے؟ معلوم ہوا کہ اسی دن صبح سویرے اسرائیلی فضائیہ کے ہیلی کاپٹروں نے غزہ کے کسی علاقہ کو نشانہ بنایا تھا اور یہ بڑی بی اس کے خلاف احتجاج کر رہی تھی۔ اسرائیل کی سول سوسائٹی کے ساتھ میرا اس طرح کا پہلا رابطہ تھا۔ یہ خاتون 75 سالہ ویوین سلور تھی۔ایک ہفتے قبل اسرائیلی حکومت نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔ وہ 7اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد غائب تھی اور گمان تھا کہ شاید حماس کے عسکری اس کو اپنے ساتھ لی کر گئے ہیں اور غزہ میں فلسطینوں میں ان کی مقبولیت اور گڈ ول کی وجہ سے وہ شایدمحفوظ ہونگی۔ مگر فرانزک ماہرین نے جلی ہوئی لاشوں کے تجزئے کے بعد ان کی موت کی تصدیق کردی۔ جب میں نے ان کو پہلی بار سدیرات میں اپنے جلوہ میں دیکھا تو ایسا لگا تھا جیسے دہلی کے جنتر منتر پر کشمیر کے حق میں کوئی مظاہر ہ ہو رہا ہے اور شبنم ہاشمی ، نیتا راما کرشنن یا ورندا گروور اس میں تقریر کر رہی ہیں اور پاس ہی ہند و انتہا پسند تنظیموں کا کوئی گروہ ان پر لعن و طعن کرکے ان کی دیش بھگتی پر سوال اٹھا رہا ہے۔ یہ میری ویوین سلور کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد جب بھی فلسطین یاغزہ کے حوالے سے کسی خبر کی تصدیق یا معلومات کی ضرورت ہوتی تھی، بس ان کو فون کرنے یا میسج کرنے کی دیر ہوتی تھی کہ وہ پوری تفصیلات بھیجتی تھیں۔ ان کا موازنہ اگر بھارت میں کسی امن مساعی کے داعی سے کیا جائے تو وہ آنجہانی نرملا دیش پانڈے تھیں۔ وہ ان ہی کی طرح معتدل مزاج کی مالک تھیں اور انتہائی اشتعال انگیز لمحات میں بھی اپنے نرم لہجے کو برقرار رکھتی تھیں اور شاید ہی ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوتی تھی۔ میں نے 7اکتوبر کے واقعے کے بعد ان کے حوالے سے حماس کے نائب سربراہ موسی ابو مرزوق سے انٹرویو میں پوچھا تھا، انہوں نے جواب دیا کہ اسرائیلی بارڈر گارڈز نے عسکریوں کے حملے کے بعد یا تو ہتھیار ڈالے یا بھاگ گئے، جس کی وجہ سے عسقلان اور پھر النقب صحرا میں رعیم تک کوئی مزاحمت نہیں ملی۔ یہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ عسکری تو آگے بڑھتے گئے، پیچھے سے چونکہ بارڈر کی تار وغیرہ ٹوٹ چکی تھی، غزہ سے بڑی تعدادمیں لوگ یہودی بستیوں میں گھس گئے، جس سے امن و قانون کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ دوسرا عسکریوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اسرائیلی زمینی افواج یعنی انفنٹری اپنی پوزیشن حتی کہ بریگیڈہیڈ کوارٹر تک چھوڑکر چلی گئی تھیں، وہ ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کے ذریعے جوابی حملہ کرنے لگیں، جس سے شہریوں کی ہلاکتیں ہوگئیں۔ رعیم میں میلہ کے مقام پر جو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں، اسرائیلی پولیس کی طرف سے اس کی ابتدائی تحقیق موسی ابو مرزوق کے بیان کی کم و بیش تصدیق کردیتی ہے۔ کیونکہ فرانزک ماہرین کے مطابق یہ افراد زیادہ تر بھاری ہتھیاروں کے گولہ بارود سے ہلاک ہوئے ہیں اور لاشیں بھی اس قدر مسخ ہوگئی تھیںکہ ان کوپہچاننا مشکل ہو گیا تھاجبکہ حماس کے عسکریوں کے پاس تو ہلکے ہتھیار تھے، جن سے ہلاکتیں تو ہوسکتی ہیں مگر لاشیں مسخ نہیں ہوسکتی تھیں۔ اسرائیلی پولیس کی یہ ابتدائی رپورٹ اسرائیل کے انگریزی اخبار حاریز نے شائع ہوئی تھی۔ اس کی مزید اشاعت پر پھر پابندی لگائی گئی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اگست 2000میں کشمیر میں پہلگام کے نن ون کے مقام پر امرناتھ جانے والے ہندو یاتریوں کا قتل عام ہوا تھا۔ یہ قتل عام تو لشکرطیبہ کے سر منڈھ دیا گیا تھا مگر اس وقت کے سرینگر کے کور کمانڈر جنرل جے ایچ مکرجی کی قیادت میں بنی تین رکنی کمیٹی نے بعد میں اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہلاک شدگان میں اکثر کے جسم سے جوگولیاں برآمد ہوئیں وہ سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے دستوں کی بندوقوں سے چلائی گئی تھیں۔ معلوم ہو اکہ دریا لدر کے پار سے چند عسکری نمودار ہو گئے تھے اور انہوں نے فائر کھول دیا تھا۔ پولیس فورس کے دستوں نے یہ دیکھے بغیر فائر کہا ں سے آرہا ہے، اندھا دھند اس کا جواب دیا جس سے اکثر افراد ہلاک ہوئے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ جس کے کچھ حصوں کو میڈیا میں افشا کیا گیا تھا، میں بتایا گیا تھاکہ پولیس فورس کی ضرورت سے زیادہ فائرنگ سے ہلاکتیں ہوگئیں۔ ویوین سلور 1949 میں کینیڈا کے ونی پیگ قصبہ میں پیدا ہوئیں اور 1974 میں اسرائیل ہجرت کر گئیں۔ وہ برسوں سے خواتین کے حقوق کو فروغ دینے اور امن کی وکالت کرنے والی ایک اہم سماجی کارکن تھیں۔ عرب یہودی مرکز برائے بااختیاریت، مساوات، اور تعاون نیگیو انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجیز آف پیس اینڈ اکنامک ڈویلپمنٹ کی شریک ڈائریکٹر کے طور پر انہوں نے صحرائے النقب میں عرب بدوئن کمیونٹی کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا۔وہ انسانی حقوق کے گروپ بت سلیم کی سرگرم کارکن تھیں اور بعد میں اسکے بورڈکی ممبر رہیں۔ایک بات جو وہ اکثر کہتی تھیں،اگر آپ کے پاس واحد آلہ ہتھوڑا ہے تو ہر مسئلہ کیل کی طرح لگتا ہے۔ اب ہتھوڑا ہر مشکل کا حل نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی لئے تمام تر فوجی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی اسرائیل کمزوری کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی جوانی اور اسٹوڈنٹ لائف میں وہ صہیونی تحریک سے خاصی متاثر تھیں۔ جب وہ اسرائیل میں غزہ کی سرحد کے قریب واقع ایک کبوز بیری میں منتقل ہوگئیں، یہاں وہ عرب آبادی اور خاص طور پر غزہ کے مکینوں سے واقف ہوگئیں۔ غزہ کی ناکہ بندی سے قبل انہوں نے غزہ کے باشندوں کے ساتھ ثقافتی منصوبوں، فلسطینی اور اسرائیلی کاریگروں کے درمیان کاروباری روابط کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی۔وہ بعد میں بھی اس علاقہ کے ساتھ جڑی رہیں اور غزہ کے کینسر زدہ مریضوں کیلئے علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرواتی تھیں۔ ان کی ایک عرب بدو دوست امل الصانع الحجوج کا کہنا ہے کہ ویوین کی زندگی، سیاست کی سرحدوں کو دھندلا دیتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب 2009 میں غزہ پر فضائی حملے ہورہے تھے تو ہم ساتھ گلے مل کر روتے تھے۔ ایک دوسرے کو تسلی اور حوصلہ دیتے تھے۔ آج غزہ کی تباہی پر میں اکیلے روتی ہوں۔ ویوین نے زمین پر انصاف اور امن قائم کرنے کیلئے زندگی وقف کر دی تھی۔ جس کیلئے وہ طعنے بھی سہتی تھیں۔ 4 اکتوبر کو ہی سلور نے یروشلم میں ایک امن ریلی کا انعقاد کیا تھا ، جس میں 1,500 اسرائیلی اور فلسطینی خواتین نے شرکت کی۔ان کی موت کی تصدیق کے بعد ایک تعزیتی تقریب میں غزہ کے کئی مکینوں نے تحریری پیغامات بھیجے ۔ کسی نے لکھا تھا کہ کیا وہ دن کبھی آئیگا جب ہماری منزل کوئی قبرستان نہیں ہو گا بلکہ خوابوں کی ایسی جگہ ہوگی، جو دائمی امن کے گھر کے اوپر ایستادہ ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز