کچھ ضمیر کی موقع شناسی کے بارے میں : تحریر وجاہت مسعود


فضا میں اگرچہ آلودگی کی سطح بدستور بلند ہے لیکن بکرمی تقویم میں 2080کا موسم سرما دو خوش رنگ پرندوں کی لاہور کے چشمہ حیواں کے کنارے آمد کی نوید لایا ہے۔ احمد مشتاق نے 1982 ءمیں اول اول ترک وطن اختیار کیا تھا۔ کچھ برس آمد و رفت کا سلسلہ چلا۔ بالآخر 1992ءمیں امریکا میں مستقل قیام ہی طے پایا۔ عارف وقار قبلہ احمد مشتاق سے عمر میں کوئی بارہ برس چھوٹے ہیں لیکن 1980ءہی میں پاکستان سے رخصت ہو گئے تھے۔ عارف وقار نے البتہ مٹی نہیں چھوڑی۔ برس چھ ماہے کسی بہانے رونمائی ہوتی رہی۔ پختہ عمر کو پہنچے پیڑوں کا نئی زمینوں میں مستحکم طنابیں گاڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ادھر احمد مشتاق نے میر ؔکی روایت نبھائی۔ شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں / آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا۔ رواں صدی کے آغاز میں چند روز کے لئے صورت دکھائی تھی۔ ربع صدی بعد اب وطن لوٹے ہیں۔ چالیس برس گزرے، وادی غربت کا عزم باندھا تھا تو ملک پر آمریت کی رات کا انت دکھائی نہیں دیتا تھا۔ سنہ 2000ء میں اس بستی سے گزرے تو غالباً غزالی مشہدی کی سی کیفیت محسوس کی ہو گی۔ دیدیم کہ باقیست شب فتنہ، غنودیم۔ اب جو لاہور کی مٹی کو عزت بخشی ہے تو حالات کی صورت پر آج بھی غزالی ہی کا ایک مصرع منطبق ہوتا ہے۔ از بزم جہاں بادہ گساراں ہمہ رفتند۔ پاکستان میں بینکاری کے شعبے نے اردو ادب پر دو احسانات کیے۔ مشتاق احمد یوسفی اور احمد مشتاق۔

مشتاق احمد یوسفی 1978ءمیں پاکستان بینکنگ کونسل کے سربراہ تھے۔ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت پاکستان کے خود ساختہ حکمران جنرل ضیا الحق فرما رہے تھے۔ جنرل صاحب کی متواضع طبیعت کے قصے ان کے مداحوں نے بارہا رقم کیے ہیں۔ بند کمروں میں مرحوم کی گل افشانی کا عالم وہی تھا جس سے اردو زبان کو ’ملاحیاں سنانا‘ کا محاورہ ملا ہے۔ جسٹس صمدانی اور نثار عثمانی جیسے باضمیر شہریوں کے ساتھ جنرل ضیا الحق کے مکالمات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ جس اجلاس میں یوسفی صاحب شریک تھے، وہاں بھی جنرل صاحب نے ایسی ہی خوش بیانی کا مظاہرہ کرنا چاہا۔ انہیں شاید علم ہی نہیں تھا کہ جب وہ برطانوی ہند کی فوج میں کپتان تھے تو یوسفی صاحب ٹانک میں ڈپٹی کمشنر کے منصب پر فائز تھے۔ راجستھانی شرافت کے دبیز پردے میں خودداری کا مجسمہ پنہاں تھا۔ جابر سلطان کو اسی کے لہجے میں جواب دیا اور اجلاس سے اٹھ کر چلے آئے۔ خیر خواہوں نے مشورہ دیا کہ آپ کا جلال اپنی جگہ مگر آمریت کا ظرف تنگ ہوتا ہے۔ عقوبت خانوں کی تاریکی میں اپنا حقیقی چہرہ بے نقاب کرتا ہے۔ چنانچہ مشتاق احمد یوسفی بھی صمدانی صاحب ہی کی طرح ملک چھوڑ کر انگلستان چلے گئے۔ احمد مشتاق کے شعر کی سلاست سے ان کے کڑھے ہوئے سیاسی شعور کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ 1982 میں ان کا خارج البلد ہونا بھی ان کے کچھ اشعار ہی کا شاخسانہ تھا۔ عارف وقار تو خود بیان کر چکے ہیں کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کامیاب پروڈیوسر کی حیثیت سے سکہ جمانے کے بعد ان کے لیے سنسرشپ کی نظربندی ناقابل قبول تھی۔ آمریت ملکی معیشت کو نقصان تو پہنچاتی ہے، اس سے بڑی خرابی یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے اجتماعی اثاثے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں ہوتا۔ دستور کے سائبان سے محروم شہریوں کی انا ہر لحظہ مجروح ہوتی ہے اور جنہیں یہ بے دست و پائی قبول نہ ہو، وہ ہجرت کر جاتے ہیں۔ اردو کی جدید شاعرہ عشرت آفریں نے اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا تھا۔’ بجرے دریا پار خزانے اپنے ڈھو لے جاتے ہیں‘۔ معیشت کے ماہر غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے شہریوں کی شرح فیصد تو بیان کر سکتے ہیں، یہ نہیں بتا سکتے کہ عہد تعطل میں قوم اجتماعی طور پر کس غربت کا شکار ہوئی؟

غربت محض کیسہ خالی ہونے کا نام نہیں۔ غربت ان گنت سمتوں سے حملہ آور ہوتی ہے۔ اس کی بدترین صورت یہ ہے کہ کسی زمین سے روشن آرا بیگم کا سُر اٹھ جائے، صادقین کی تصویر پر چونا تھوپ دیا جائے۔ غلام عباس کا افسانہ گنگ ہو جائے۔ احمد بشیر کے قلم کی نوک ٹیڑھی ہو جائے نیز یہ کہ مصر کے بازار میں ضمیر کی دست فروشی کا چلن عام ہو جائے۔ تفصیل بیان کرنے کا یارا نہیں، اصحاب نظر کے لیے اشارہ کافی ہے۔ حالیہ مہینوں میں کتنے بیانات میں یہ جملہ دہرایا گیا کہ میرا ضمیر اب مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ جو ضمیر موسم بدلنے کے بعد جاگتا ہے، وہ کبھی تہمت وجود سے متہم ہی نہیں ہوا۔ ہمارے ایک بزرگ صحافی نے اپریل 1977میں روزنامہ مساوات کی ملازمت سے مستعفی ہوتے ہوئے بیان جاری کیا تھا کہ اب ’بھٹو کی فسطائیت مزید برداشت نہیں کر سکتا‘۔ میں اور آپ یہیں موجود تھے جب بھٹو کی فسطائیت سے انکار کرنے والے افغان نیوز ایجنسی میں برس ہا برس پروں میں چونچ دبائے جہاد کی جھوٹی خبریں گھڑتے رہے۔ طالبان کے قصیدے لکھتے رہے۔ جس جنگ میں قدم ہی نہیں رکھا، اس کے ’فاتح‘ کی سوانح رقم کرتے رہے۔ ’چیئرمین تحریک انصاف‘ کے چوبی مجسمے پر روغن قاز ملتے رہے۔ خبر ہے کہ ایک محترم پاکستانی خاتون امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کے خلاف غیر ملکی عدالت میں چارہ جوئی کا ارادہ رکھتی ہیں۔ بہت نیک ارادہ ہے۔ مناسب ہو گا کہ ایک مقدمہ ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی دائر کر دیں جس نے اپنی کتاب میں تحریر کیا اور اب عوامی جلسوں میں ببانگ دہل کہتا ہے کہ 2020 میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی عراق میں امریکی ڈرون حملے سے موت کو اپنی زندگی کا اہم ترین واقعہ قرار دیا تھا۔ ازالہ حیثیت عرفی کا یہ مقدمہ ڈونلڈ لو کے خلاف بے نام مقدمے سے کہیں زیادہ شہرت پائے گا۔ موقع بہت اچھا ہے اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ضمیر موقع شناس ہوتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے غیرت موقع محل سمجھتی ہے اور تاریخی حقائق کا انکشاف کرنے کیلئے مناسب ٹیلی ویژن اینکر کا انتخاب کرنا بھی جانتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ