الیکشن کمیشن پر اعتماد : تحریر مزمل سہروردی


پیپلزپارٹی کے صدر آصف زرداری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انھیں الیکشن کمیشن پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ ملک میں شفاف انتخابات کروائے گا۔

انھوں نے کہا ہے کہ ملک کا ماحول انتخابات کے لیے سازگار ہے۔ پیپلزپارٹی انتخابات کے لیے تیار ہے۔ اس سے پہلے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو مسلم لیگ (ن) پر لاڈلا ہونے کا الزام لگا رہے تھے۔

اس کے ساتھ بلاول اس بات کا بھی گلہ کر رہے تھے کہ پیپلزپارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل نہیں ہے۔ وہ بار بار پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ن لیگ کو ترجیح دینے کا الزام لگا رہے تھے۔

اب آصف زرداری کے بیان کے بعد کم از کم یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ پیپلزپارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے جو گلے شکوے ہیں وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر سے نہیں ہیں۔ اب تو یہ بات سمجھنے کی رہ گئی ہے کہ اگر انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر مکمل اعتماد ہے تو کس پر مکمل اعتماد نہیں ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آصف زرداری کے بیان کی فوری حمایت کی ہے۔ مریم اورنگزیب نے فوری پریس کانفرنس میں اس بیان کو خوش آیند قرار دیا۔یہ حمایت بھی ایسے ماحول میں سامنے آئی ہے جب ہم پیپلزپارٹی کو ن لیگ کے خلاف محاذ جنگ کھولے دیکھتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) مسلسل پیپلزپارٹی کے ساتھ درجہ حرارت کم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے دوسری طرف بلاول روز درجہ حرارت بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ویسے یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلاول مکمل مزاحتمی اور جارحانہ بیانات دے رہے ہیں جب کہ زیادہ خاموش رہنے والے آصف زرداری جب دیکھتے ہیں کہ اب نقصان کا خدشہ ہے تو آصف زرداری ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے میدان میں آتے ہیں۔ وہ اپنے بیان سے صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔

اس سے پہلے جب بلاول نے نوے دن میں انتخابات کے حو الے سے مہم شروع کی تھی تب بھی آصف زرداری نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس بیانیہ سے پیپلزپارٹی اور بلاول کو نقصان کا خدشہ ہے تو انھوں نے اسی طرح ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بیان دیے تھے۔ بلکہ جب دیکھا کہ صرف ان کے بیانات سے ماحول ٹھنڈا نہیں ہو رہا تو بلاول کو بھی خاموش کروایا گیا ۔

اس لیے مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف بلاول جارحانہ سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ مزاحتمی سیاست کی شکل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہیں نہ کہیں پیپلزپارٹی کو اینٹی اسٹبلشمنٹ شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کوشش میں جہاں آصف زرداری کو یہ خدشہ نظر آتا ہے کہ کہیں واقعی اسٹبلشمنٹ سے لڑائی نہ ہو جائے، وہ ماحول کو ٹھنڈا کرتے نظر آتے ہیں۔

اس طرح پیپلزپارٹی ووٹر کو یہ یقین دلوانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کی مخالف جماعت ہے اور اسٹبلشمنٹ کو یہ یقین دلارہی ہے کہ ہم آپ کے ہیں بس ووٹر کو جذباتی بنانے کی اجازت دی جائے۔ اس لیے ماحول کو گرم بھی رکھا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ ٹھنڈا بھی کیا جاتا ہے۔

پیپلزپارٹی اس سے پہلے الیکشن کمیشن سے بھی گلے شکوے کرتی نظر آتی تھی۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے الیکشن کمیشن کے خلاف بھی بیانات دیے تھے ۔ بالخصوص نگران حکومت کے قیام کے بعد سندھ میں ٹرانسفر پوسٹنگ پر پیپلزپارٹی نے بہت سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ انھیں اپنے پسندیدہ افسران کو سندھ سے باہر ٹرانسفر پر اعتراض تھا۔

وہ اس کا موازنہ پنجاب سے کرتے ہوئے یہ گلہ کرتے بھی نظر آئے کہ پنجاب میں ایسا نہیں ہوا جیسا سندھ میں ہوا ہے۔ اس طرح اب لگتا ہے کہ آصف زرداری الیکشن کمیشن کے ساتھ بھی معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جہاں تک الیکشن کمیشن کی بات ہے تو چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان نے نہایت مشکل حالات میں الیکشن کمیشن کا چارج سنبھالا۔ اس لیے اب ملک کی سیاسی جماعتوں کو اس بات کا اندازہ ہو جانا چاہیے کہ کم از کم انھیں دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا۔

سب سے پہلے تحریک انصاف نے انھیں دباؤمیں لانے کے لیے پروپیگنڈے کی ایک بھر پور مہم شروع کی۔ لیکن تحریک انصاف اس پروپیگنڈا مہم سے اپنے نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی اور آج ہمیں نظر آرہا ہے کہ تحریک انصاف بھی الیکشن کمیشن کے حق میں نظرآ رہی ہے۔ انھیں آج بھی کچھ امید ہے تو الیکشن کمیشن سے ہی امید ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر نے اب تک ملک میں جتنے ضمنی انتخابات کروائے ہیں۔ ان کی شفافیت پر اب تک کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔

چیف الیکشن کمشنر پر سب سے زیادہ اعتراض کرنے والی تحریک انصاف بھی کسی انتخابات پر کوئی اعتراض نہیں کر سکی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف اور چیف الیکشن کمشنر کی لڑائی ڈسکہ انتخابات سے شروع ہوئی تھی جب چیئرمین تحریک انصاف کی وزارت عظمی میں ہونے والے ڈسکہ ضمنی انتخابات میں دھاندلی پکڑ لی گئی تھی اور دوبارہ انتخابات کا حکم دے دیا گیا تھا۔

چیئرمین تحریک انصاف کو یہ پسند نہیں آیا تھا اور انھوں نے دھاندلی پر معذرت کرنے کے بجائے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مہم شروع کر دی تھی۔ اس کے بعد تحریک انصاف کئی ضمنی انتخاب جیتی بھی۔ لیکن چیف الیکشن کمشنر کسی دباؤ میں نظر نہیں آئے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سکندر سلطان راجہ کو سب سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح دباؤ میں لانے کی کوشش کر چکی ہیں لیکن ناکام ہی ہوئی ہیں۔

آصف زرداری کو اندازہ ہے کہ فیلڈ ایمپائر سے لڑ کر میچ جیتا نہیں جا سکتا۔ انتخابات میں فیلڈ ایمپائر کا رول الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آصف زرداری نے یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھی ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا گلہ الیکشن کمیشن سے نہیں ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ حالات ٹھنڈے کیے جا رہے ہیں۔

ایک سوال سب کے ذہن میں ہے کہ بلاول اور آصف زرداری کے درمیان اختلافات کتنے سنجیدہ ہیں۔ کیا یہ نواز شریف اور شہباز شریف جیسی صورتحال ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ایسی صورتحال ہے۔ سب سیاسی جماعتیں شہباز شریف اور نواز شریف جیسی اننگ کھیلنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ لیکن ناکام رہی ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شہباز شریف حقیقی طور پر مفاہمت کے حامی ہیں۔ وہ مصنوعی حامی نہیں ہیں۔ جب کہ دوسری سیاسی جماعتیں مصنوعی ماحول بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ابھی تو زرداری صاحب پیپلزپارٹی اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کی گاڑی چلا رہے ہیں۔

لیکن جب بلاول کو مکمل کمانڈ ملے گی تو کیا وہ بھی ایسے ہی چاہیں گے اس پر سوالات بھی ہیں اور خدشات بھی ۔ شاید بلاول کہیں نہ کہیں اپنی سیاست سے اپنے لیے خدشات کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ اس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس