دو انتہائیں! : تحریر انصار عباسی


فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت پر اعتراض ضرور کرنا چاہیے اور اس مسئلہ کے دیر پا حل کیلئے اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، سول حکومت اور عدلیہ سب کو اپنی اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اُن کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنا چاہیے جو بار بار فوج کی طرف سے سیاست میں مداخلت کا سبب بنتی ہیں۔

دہائیوں سے جاری اس مسئلہ کا کیا کوئی فوری حل ممکن ہے؟ اس سوال پر بھی بحث ہوتی رہنی چاہیے لیکن ایک طرف یہ سمجھنا اگر غلط ہے کہ سیاستدان تو سب کے سب چور ہی ہوتے ہیں اور کوئی بھی پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں تو دوسری طرف فوج کو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے اپنا دشمن سمجھنا دراصل اُس کی اُس اہمیت سے انکار کے مترادف ہے، جس کا تعلق پاکستان کے دفاع اور اندرونی سیکورٹی معاملات سے ہے، یہ ایسا رویہ ہے جو پاکستان کی سالمیت کیلئے بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت و سیاستدانوں کی اس تاریخی لڑائی میں پاکستان کی عدلیہ کا بہت گھناؤنا کردار رہا۔

اگر پاکستان کی عدلیہ ٹھیک ہوتی تو نہ یہاں مارشل لا لگتے، نہ سیاسی مداخلت ہوتی اور نہ ہی سیاستدان اور سول حکومتیں میرٹ کا قتل کرتیں، نہ یہاں سفارش اور اقرباپروری کا راج ہوتا اور نہ ہی غلط طرز حکمرانی کا رواج ہوتا۔

پاکستان کی عدلیہ کچھ درست کرنے کی بجائے اس سول ملٹری لڑائی میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتی رہی۔

عمران خان کی حکومت کے خاتمہ اور تحریک انصاف کے فوج مخالف بیانیہ کے بعد عدلیہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری کی بجائے اُس کے خلاف جاتی ہوئی نظر آئی۔

کچھ لوگوں کی رائے میں ججوں کا ایک طبقہ تو وہ تھا جو خان کی محبت میں کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھا جبکہ ایک طبقہ وہ تھا جو اپنے آپ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ثابت کرنے کیلئے فوج کو گالیاں دینے والوں کو بھی رعایتیں دے رہا تھا۔

اسی دوران 9 مئی کے واقعات رونما ہوگئے جو نہ صرف پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا تھے بلکہ فوج کے ادارے کیلئے 9/11سے کم نہ تھے۔ اُس وقت جس طرح سپریم کورٹ نے عمران خان کو پروٹوکول دیا اور اُن کی فوری رہائی کیلئے راستہ ہموار کیا وہ بھی اپنی ہی قسم کی ایک مثال تھی۔

9 مئی کے واقعات جن کا حال ہی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں ایک منفی حوالہ کے طور پر ذکر کیا، اُن کی پاکستان اور فوج کے متعلق حساسیت اور سنگینی کو اُس وقت کی سپریم کورٹ نے ignore کیا۔ اُس وقت کی سپریم کورٹ کے اس رویے کے برعکس حکومت، پارلیمنٹ اور فوج کی طرف سے9مئی کے واقعات کے متعلق سخت موقف اپنایا گیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ جو لوگ فوجی عمارتوں، تنصیبات، یادگاروں وغیرہ پر حملے میں شامل تھے اُن کا ٹرائل آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیا جائے گا۔

اس بارے میں دوسرا موقف یہ سامنے آیا کہ 9مئی کے واقعات میں شامل ملزموں کے مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں نہیں چل سکتے۔ یہ وہ سوال تھا جو سپریم کورٹ کے سامنے اُس وقت اُٹھاگیا لیکن اُس وقت کی سپریم کورٹ نے یہ تاثر دینے کے بعد کہ اس مقدمہ کا فیصلہ فوری کیا جائے گا، اس معاملہ کو التوا میں ڈال دیا۔

جب موجودہ چیف جسٹس نے اس مقدمہ کو دوبارہ ایک پانچ رکنی بنچ کے سامنے اُٹھایا تو پہلی ہی سماعت میں سپریم کورٹ بنچ نے 9 مئی کے ملزمان کے آرمی ایکٹ کے تحت فوجی ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آرمی ایکٹ کی چند ایسی شقوں کو بھی خلاف آئین قرار دے دیا جس کے تحت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیوجیسے ملک دشمنوں کا مقدمہ بھی آرمی ایکٹ کے تحت نہیں چلایا جا سکتا۔

اس فیصلے پر بہت سے لوگ خوش ہوئے اور اسے بڑی کامیابی قرار دیا جبکہ دوسری طرف سے اعتراض یہ اُٹھایا گیا کہ فیصلہ بہت جلدی میں کر دیا گیا، قومی سلامتی کے اُن معاملات کو نہیں دیکھا گیا جن کا تعلق پاکستان کے دفاع اور سیکورٹی سے ہے۔

پانچ میں سے ایک جج صاحب جسٹس یحییٰ آفریدی نے آرمی ایکٹ کی متعلقہ شقوں کو خلاف آئین قرار دینے کے فیصلے سے اختلاف کیا۔ اب حکومت، وزارت دفاع اور دوسروں کی طرف سے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کر دی گئی ہے۔

یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔9 مئی کے ملزمان کی حد تک فیصلہ ہوتا تو شاید بہت سوں کو اعتراض نہ ہوتا لیکن آرمی ایکٹ کے ایسے حصے کو ہی خلاف آئین قرار دینے سےغیر ملکی جاسوسوں، فوجی اور حساس ترین تنصیبات پر حملہ کرنے والے غیر ملکی دہشت گردوں تک کے خلاف بھی آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ نہیں درج ہو سکتا۔

آرمی پبلک اسکول کے سانحہ کے بعد آئین میں ترمیم کر کے چار سال کیلئے دہشت گردی کے واقعات میں شامل ملزموں کے فوجی ٹرائل کیے گئے کیوں کہ ہمارا سول عدالتی نظام دہشت گردوں کو سزائیں دینے میں ناکام رہا تھا۔

ہمارے عدالتی نظام کی کیا حالت ہے سب کو معلوم ہے۔ اس نظام کو درست کریں تاکہ سب کو انصاف ملے۔

آرمی ایکٹ کا اگر غلط استعمال کیا جاتا ہے تو اُسے روکنا بھی عدلیہ کی ذمہ داری ہے لیکن قانون کو ہی جلدی میں سب کو سنے بغیر ختم کرنا، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کا فائدہ ملک دشمن، کلبھوشن جیسے غیر ملکی جاسوس اور دہشت گرد اُٹھائیں گے اس فیصلہ کو متنازع بنا دیتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ